مسلم ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی نے قرآن مجید کی مستقبل میں بے حرمتی کے واقعات کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات پر زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں دو جولائی اتوار کے روز اسلامی تعاون تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کا ایک اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوا، جس میں سویڈن میں مسجد کے سامنے قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعے سے پیدا ہونے والی صورت حال اور اس کے نتائج پر غور کیا گیا۔ اسلامی تعاون تنظیم نے اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کیا، جس میں رکن ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بار بار قرآن کی بے حرمتی سے متعلق ہونے والے واقعات کو روکنے کے لیے متحد ہو کر اجتماعی اقدامات کریں۔ تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین براہیم طحہ نے اس بارے میں واضح پیغام دینے کی ضرورت پر زور دیااور کہا کہ اس طرح کی حرکتیں اسلامو فوبیا کے محض عام واقعات نہیں ہیں۔ہمیں اس بارے میں ان بین الاقوامی قوانین کے فوری نفاذ کے بارے میں عالمی برادری کو مسلسل یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہے، جن کے تحت کسی بھی قسم کی مذہبی منافرت کی وکالت کو واضح طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک میں قرآن مجید کسی بھی طرح کی بے حرمتی غیر قانونی ہے اور سعودی عرب سمیت دنیا کے بعض ممالک میں تو اس کی سزا موت ہو سکتی ہے۔ جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں سعودی دعوت پر او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں پاکستان، اردن، انڈونشیا، ملائیشیا، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، بحرین سمیت رکن ممالک کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان شریک تھے۔پاکستانی مندوب برائے اسلامی تعاون تنظیم نے پاکستان کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کو قابل نفرت قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک کو جلانے جیسی گھناو¿نی اور ناقابل برداشت حرکت کی گئی جس سے پوری مسلمان دنیا کو شدید تکلیف پہنچی۔اس موقع پر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ کا کہنا تھا کہ قرآن پاک اور پیغمبر اسلام ﷺکی بے حرمتی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کیلئے بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کی ضرورت ہے جو منافرت کو پھیلنے سے روکتا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے تمام اسلامی ممالک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں اور ٹھوس اقدمات کریں۔او آئی سی نے اعلامیے میں درست کہا ہے کہ اس قسم کے اقدامات لوگوں کے درمیان باہمی احترام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ رواداری اور اعتدال پسندی جیسے اقدار کے پھیلاو¿ اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی بین الاقوامی کوششوں سے متصادم ہیں۔ یہ بات بھی لائق تحسین ہے کہ متعلقہ ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ان گھناو¿نے حملوں کی روک تھام سمیت قرآن اور دیگر اسلامی اقدار، علامتوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی تمام کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سلسلے کو روکنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں۔او آئی سی نے تمام ممالک پر عائد ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کا احترام اور ان کی پابندی کا فروغ تمام ریاستوں پر فرض ہے، ذمہ داری کے ساتھ اور متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق آزادی اظہار کے حق کا استعمال کیا جائے۔دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے واقعے پر سویڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ انقرہ کبھی بھی اشتعال انگیزی یا دھمکی کی پالیسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مغرور مغربی لوگوں کو سکھائیں گے کہ مسلمانوں کی مقدس اقدار کی توہین کرنا اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ سوئڈن میں یہ واقعہ پہلی بار نہین ہو رہا بلکہ اس قبل رواں سال آغاز میں بھی یہ بیہودہ حرکت کی گئی تھی ۔اسلام مخالف سویڈش ڈینش سیاست داں راسمس پالوڈن نے قرآن مجید کونذر آتش کیا تھا، تب بھی بڑے پیمانے پرپاکستان، ایران اور ترکی سمیت کئی اسلامی ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے ۔لیکن سویڈش حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اوآئی سی کے لپیٹ فارم سے ایک سخت پیغام سوئڈش حکومت کو پہنچایا جائے تاکہ اس کے ہوش بھی ٹھکانے آئیں۔
بلو چستان میں دہشت گردی کے افسوسناک واقعات
گزشتہ روز ایک بار پھربلوچستان میں دہشت گردی کے دوافسوسناک واقعات پیش آئے جس میں جوانوں نے شہادت پائی ہے۔بلوچستان کے ضلع شیرانی میں پولیس چیک پوسٹ پر حملے میں 4اہلکار شہید ہوگئے، وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے شیرانی میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزدلانہ کارروائیاں فورسز کے حوصلے پست نہیں کر سکتیں، سکیورٹی فورسز کی قربانیاں قوم کیلئے مشعل راہ ہیں،عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز پختہ عزم و حوصلے کے ساتھ ملک و قوم کا تحفظ یقینی بنا رہی ہیں۔ادھر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان کے علاقے ہوشاب میں دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کیا گیا۔ ہوشاب میں کیے جانے والے آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز کی کمبیٹ پٹرول پارٹی پر گھات لگا کرحملہ کیا، فائرنگ سے میجر ثاقب حسین اور نائیک باقر علی بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے، پاکستان آرمی کے31سالہ میجرثاقب حسین شہید کا تعلق ضلع سانگھڑ جبکہ26سالہ نائیک باقرعلی شہید کا تعلق ضلع دادو سے ہے۔ سیکیورٹی فورسز بلوچستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ناکام بنانے کیلئے پرعزم ہے، تمام شہدا بشمول میجرثاقب اور نائیک باقرعلی کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، دہشت گردوں کیخلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔حالیہ چھ ماہ میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کا خطرناک رجحان دیکھا جا رہا ہے ، جس میں ملک بھر میں 389 افراد کی جانیں چلی گئیں ہیں۔ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زیرہ جائزہ مدت کے دوران مجموعی طور پر 271حملے کے گئے، گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 151 حملے کے گئے تھے، جس کے نتیجے میں 293 افراد کی شہادتیں ہو گئی تھی اور487 افراد زخمی ہوئے تھے،لیکن ہمیں اپنے سکیورٹی اداروں سے امید ہے کہ وہ جانوں کی پرواہ کئے بغیراس ناسور کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔
بھارت میں افغان طلبہ کےساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک
مودی کا بھارت مذہبی تعصب اور تنگ نظری کی بد ترین مثال بنتا جا رہا ہے۔ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان طلبا کے لیے بھارت نے بڑے بلند بانگ دعوے کئے لیکن اب وہ غیر متزلزل حمایت دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں ، بھارت نے افغان شہریوں کو پہلے سے جاری کیے گئے تمام ویزے منسوخ کردیئے ہیں، ان میں زیادہ تر ویزے طالبعلموں کے ہیں۔ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ بھارت کی جانب سے افغان طلبا کو ویزا جاری کرنے سے انکار کے باعث آن لائن امتحانات ممکن نہیں رہے، ہندوستانی یونیورسٹیوں میں 2500سے زیادہ افغان طلبا ویزا مسائل کی وجہ سے افغانستان میں ہی پھنس گئے ہیں۔ افغان طلباءکے شدید احتجاج کے بعد جے شنکر نے سکیورٹی خدشات، غیر اعتمادی اور ویزا سسٹم کی کارکردگی کا حوالہ دے کر معاملہ ٹالنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سے افغان طلبا کو انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی طرف سے سکالرشپ مہیا کی گئی تھی۔اب ویزا سے انکار کے باعث یونیورسٹیوں نے داخلے منسوخ کرنا شروع کر دیئے ہیں، 2022 میں صرف 300 ای ویزا جاری کیے گئے تھے جس کی وجہ سے افغان طلباءہندوستان میں اپنی تعلیم جاری کرنے سے قاصر ہیں، اس دوران پاکستان نے افغان طلباءکو 4,500 مکمل فنڈڈ وظائف کی پیشکش کی تھی افغان طلبا کاکہنا ہے "ہم سمجھتے تھے کہ بھارت ہمارا دوسرا گھر ہے لیکن اس نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ۔ ہندوستان میں کئی طلبہ رہنما سفارتخانوں میں متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھا رہے ہیں لیکن اس کوشش کاکوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔افغان طلبا کو وظائف سے انکار ہندوستان کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرتاہے۔
اداریہ
کالم
اوآئی سی کا اہم اجلاس،سخت پیغام دینے کی ضرورت ہے
- by web desk
- جولائی 4, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1405 Views
- 2 سال ago
