اوول آفس کے دہکتے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر اور امریکی نظم ریاست و سیاست کے تازہ رجحان ” ٹرمپالوجی” کا سامنا کرنے کے بعد یوکرین کے اداس صدر زیلنسکی کے پاس تین راستے باقی بچے تھے۔ پہلا راستہ یہ تھا کہ اپنے ملک واپس جا کر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو براہ راست فون کر کے یک طرفہ جنگ بندی کا عندیہ دیتے ہوے تمام معاملات باہمی بات چیت اور ایک دوسرے کے مفادات کے مطابق حل کرنے کا اعلان کر دیتا۔ یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے کہ ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے ، زیلنسکی اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کرتا کہ؛ اس نے امریکہ اور یورپ کے دیئے گئے لالچ (یورپین یونین کی رکنیت) اور اکساوے میں آکر تنازع شروع کیا تھا،اور اب سبق سیکھ کر اپنے ہمسائے اور بڑے ملک روس کے ساتھ مل جل کر ،باہم مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پرامن طور پر ترقی کا سفر شروع کرنا چاہتا ہے ۔میرا نہیں خیال کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اس پیش کش کو رد کر دیتا۔لیکن زیلنسکی نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا ۔زیلنسکی کے پاس دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ یورپین یونین لیڈرز سے مل کر یورپ اور روس کے مشترکہ مفادات کے تناسب اور حوالے سے کسی ایسے قابل قبول اجتماعی فیصلے پر پہنچتے، جس میں امریکہ پر انحصار کم سے کم ہوتا اور جس میں روس کے ساتھ مخاصمت کے سو سالہ عہد اور تصور کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا جاتا۔لیکن یہ مثالی قدم زیلنسکی تنہا نہیں اٹھا سکتا تھا۔اسے یورپین ممالک کے لیڈرز کے گرم جوش معانقے تو میسر آئے ،لیکن وہ سمجھ چکا تھا کہ ؛اگرچہ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کا چالیس فی صد حصہ روس سے حاصل کرتا ہے اور اسے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو دور بیٹھے امریکہ کے اشاروں سے آزاد کر لینا چاہیئے، لیکن ، زیلنسکی سمجھ چکا تھا کہ یورپ کی بھی رگ جان اسی پنجہ یہود میں ہے کہ؛ جس نے امریکہ جیسے بڑے ملک کی گردن اور باقی حساس چیزیں دبوچ رکھی ہیں۔تو پھر یوکرین کے زیلنسکی کے پاس ایک ہی راستہ بچتا تھا، اور اس راستے کا اعلان بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے اور کانگریس کو بتایا ہے کہ یوکرین کےصدر ولادیمیر زیلنسکی نے انہیں ایک خط لکھ کر بتایا ہے کہ یوکرین امریکہ کی قیادت میں اور امریکہ کی شمولیت ، تعاون اور معدنیات خواہی اور زر پرستی کے مطابق روس کے ساتھ جنگ بندی کے معاملات طے کرنے کے لیے تیار ہے۔قیاس چاہتا ہے کہ صدر زیلنسکی نے اپنے اس خط کا آغاز میر تقی میر کی اس غزل کے انگریزی ترجمے سے کیا ہوگا؛
شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
آیا شب فراق تھی یا روز جنگ تھا
کثرت میں درد و غم کی نہ نکلی کوئی طپش
کوچہ جگر کے زخم کا شاید کہ تنگ تھا
دل سے مرے لگا نہ ترا دل ہزار حیف
یہ شیشہ ایک عمر سے مشتاق سنگ تھا
مت کر عجب جو میر ترے غم میں مر گیا
جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا
دل شکستہ و دل گرفتہ صدر زیلنسکی کے مطابق یوکرین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں روس کے ساتھ جنگ بندی اور امن معاہدے پر نتیجہ خیز بات چیت کرنے پر بقائمی ہوش و حواس اور بلاجبر و کراہ غیرے آمادہ و تیار ہے ۔زیلنسکی نے اوول آفس کے گرما گرم آتش دان کے سامنے ہونے والی بات چیت کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے یہ بات بھی بطور ترغیب و تحریص دھرا دی ہے کہ؛ یوکرین امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کی نایاب معدنیات پر تصرف اور پیہم منافع خوری کا معاہدہ کرنے کے لیے بھی رضامند ہے ۔ دراصل اس وقت امریکہ آنے والے پچاس ،سو سال کے لیے تیاری کرنے کا سوچ رہا ہے اور اس کام کے لیے اسے گزرے پچاس ، سو سال کے کمبل سے جان چھڑانے کی اشد ضرورت ہے۔روس کے ساتھ مراسم کی نئی شکل و صورت اور تازہ ترجیحات کا پس منظر بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ مستقبل سے وابستہ ٹیکنالوجی کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں پائی جانے والی نادر اور کم یاب معدنیات پر تصرف اور ان کا ارزاں حصول ہی کامیابی اور ٹیکنالوجی میں فوقیت کی بنیاد بنے گا، امریکہ معدنیات پر تصرف کے حوالے سے کچھ نیم پاگل سا ہو چکا ہے۔ایلان مسک کی پیہم مسکا بازی نے بھی صدر ٹرمپ کو معدنیات کے حوالے سے مزید ہراساں کر رکھا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ چاہے گرین لینڈ ہو چاہے یوکرین اور چاہے افغانستان (اور پاکستان) معدنیات پر تصرف صرف امریکہ کا ہونا چاہیئے۔کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری میں ان معدنیات کی ضرورت پڑتی ہے۔ یوکرینی صدر ان معدنیات کے بدلے کچھ تحفظات اور ضمانتیں چاہتا تھا، امکان ہے کہ صدر زیلنسکی اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہو گا ۔ بہرحال پولیٹیکل سائنس کے طالب علم یہ بات یاد رکھیں گے کہ؛ امریکہ نے یورپ کو نیٹو میں اپنے حصے اور کردار کے حوالے سے ساتھ ملا کر یوکرین کو یورپین یونین کا حصہ بنانے کا لالچ دے کر جنگ کے حوالے کر دیا تھا۔ اب اپنی ہی شروع کرائی گئی جنگ کو ختم کرانے کے عوض یوکرین کی معدنیات پر اگلے پچاس ، سو سال کے لیے قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اور اس کے عوض یوکرین کو کوئی ضمانت یا تحفظ دینے سے انکاری ہے۔دوسری طرف ٹرمپ خود امریکہ کو تجارتی طور پر دنیا سے الگ کر کے امریکیوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے ۔ ٹیرف بڑھانے سے چین ، کینیڈا اور میکسیکو کو کیا فرق پڑے گا۔یورپ کے ساتھ بھی تعلقات کو بگاڑ کر امریکہ کیا فایدہ حاصل کر پائے گا؟ایک ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ کسی "کارپوریشن” کے ملازمین جیسا سلوک نہیں کرتی یا نہیں کر سکتی۔ایلان مسک نے ٹرمپ کو جس راہ پر لگایا ہے وہ اسے جلد ہی غیر مقبول کر سکتا ہے۔کارپوریٹ سیکٹر اپنے ملازمین کے ساتھ ان کی افادیت اور مطلوبہ خدمات کے حساب سے معاملہ کرتا ہے۔جب کہ ریاست اپنے ہر شہری کی کفیل ہوتی ہے یا ہونی چاہیئے ۔ٹرمپ یہ بات سمجھ نہیں پا رہا۔ ٹرمپ نے جن شرائط اور جن اصولوں پر اپنا رئیل اسٹیٹ کا کاروبار چلایا ہے ، ان شرائط اور اصولوں پر ایک فیڈریشن نہیں چلائی جا سکتی۔ صدر ٹرمپ کو کانگریس کے روبرو اپنی تقریر کی ریکارڈنگ کم از کم دو بار سننی اور تین بار دیکھنی چاہیئے۔جس سے دو باتیں ثابت ہو سکتی ہیں؛ایک تو یہ کہ 78 سال سے متجاوز ٹرمپ کی صحت بہت اچھی ہے ، اور وہ کھڑے ہو کر طویل ترین خطاب کر کے اپنے چہرے کے تاثرات میں تبدیل کر سکتے ہیں،اور دوسری بات یہ کہ جلد یا بدیر ڈونلڈ ٹرمپ یا پھر امریکہ کو اپنی رائے اور پالیسیاں تبدیل کرنی پڑیں گی۔ تجارتی کمپنیاں نفع نقصان کی بنیاد پر اور ریاست احسان اور فلاح کی بنیاد پر چلتی ہے۔اور یہ بھی کہ نائب صدر جے ڈی وینس کو اپنے "دکھوں” پر قابو پانے کےلئے مہاتما بدھ کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا ؛ جو یہ کہتا ہے کہ؛(چونکہ)دنیا دکھوں کا گھر ہے ،اور دکھوں کی وجہ خواہشات ہیں ،اور ترک خواہش سے ان دکھوں پر قابو پایا جا سکتا ہے، تو جے ڈی وینس کو آئندہ چار سال تک اپنی نائب صدارت پر اکتفا کرنا چاہیئے۔اور سب سے اہم بات؛ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اوول آفس کے آتش دان کی حدت کو بہر صورت کم کرنا پڑیگا ۔
کالم
اوول آفس کا دہکتا آتش دان
- by web desk
- مارچ 7, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 54 Views
- 4 مہینے ago