کالم

اَج مٹی دے اُتے بندیا کل مٹی دے تلے

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ا ن پر عذاب کی بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کی روشنی میں اگر ہم اپنی ایلیٹ کلاس کا جائزہ لیں تو معلو م ہوتا ہے کہ جس طبقے میں دولت شہرت اورنام نہاد عزت کے نقارے گونج رہے ہوں وہاں کی اکثریت اللہ کے احکامات میں نافرمانی میں ملوث ہوتی ہے سب کچھ جاننے کے باوجود وہ کچھ نہیں جانتے اور نہ جاننے کی تمنا رکھتے ہیں انکا مقصد دنیا کی زندگی کو ہر حربے سے تعیش کا ذریعہ بنا نا ہے ان کی ہر کوشش بکھری ہوئی کامیابیوں کو سمیٹنا ہوتا ہے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ گنہگار کا مقصد کامیاب ہو جائے توگنہگار ہی رہتا ہے مقصد ناکام ہو جائے تو گناہ سے بچ جاتا ہے دولت شہرت اور لذت وجود نفس ان تینوں کو اگر نصیب اچھا ہو دھیما کرتے کرتے ختم کر دیا جائے تو زندگی کا راستہ آسان ہو جاتا ہے بلکہ کسی حد تک زندگی آسا ن ہو جاتی ہے سوال یہ ہے کہ اتنی جدوجہد کیلئے کس راستے کا تعین کیا جائے کہ مقصد میں کامیابی ہو وہ راستہ جو اللہ کے محبوب نے بتایاعمل کر کے دکھایا اسی راستے پر چل کر انسان کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے ورنہ بھٹکتے رہنا اس کا مقدر ہے صرف دعائیں اثر نہیں دکھاتیں اللہ کے ساتھ جتنی تعلق کی رینج ہے اتنی ہی دعا کی رینج بھی ہے یہ اللہ کی طرف جاتی ہیں اور تاثیر لاتی ہیں یتیموں کامال کھا کر تاثیر نہیں ملتی ملک کو لوٹ کر بینک بھرنے سے تاثیر نہیں مل سکتی مٹھی بھر لوگوں کے اعمال کی وجہ سے ہمارا ملک اس وقت اللہ کی ناراضگی کی رینج میں ہے سیلاب کی تباہ کاریاں اتنی زیادہ ہیں کہ لوگوں کو سنبھلتے ہوئے بہت وقت درکار ہوگا معاش اور معیشت سب کچھ اللہ کی ناراضگی کی زد میں ہیں کرے کوئی بھرے کوئی والا معاملہ بھی ہے یہ اللہ کے کام ہیں وہ انسانوں کو تنبیہہ کے ساتھ سرزنش کرتے ہوئے اشرف المخلوقات کوپکڑ بھی لیتا ہے تاکہ اسکی اصلاح ہو جائے اس وقت ہمارے اسلامی ملک کونسا گناہ ہے جو نہیں ہو رہا سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہے عام آدمی کے بس میں نہیں کہ اس کی اصلاح کرسکے جن کے بس میں ہے وہ خوددولت شہرت اور لذت وجود میں ملوث ہیں اپنے ہر دل عزیز رہنماؤں کے شب و روز کے قصے ڈھکے چھپے نہیں کیا انہیں اللہ کا خوف نہیں اگر ہے تو اپنی ذات پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے اسلئے کہ ان کے معاملات زندگی متاثر نہ ہوں ان اعمال میں دنیاوی زندگی کی وقتی کامیابیاں چھپی ہیںان کو چھوڑ دیں تو زندگی بیکار نظر آتی ہے جس ملک پر حکمرانی کرتے ہیں اس کو چھلنی کر کے دیار غیر میں قیام کرلیتے ہیں اگر انہیں اللہ کا خوف ہو اور یہ یقین ہو کہ اس زندگی کے بعد دائمی زندگی میں پوچھ گچھ ہوگی تو شاید انکے اعمال میں تبدیلی واقع ہولیکن انہیں یقین نہیں اس لیے لوٹ مار کا بازار گرم ہے ملک دنیا میںکرپشن کے لحاظ سے بدنام ہو چکا ہے ہمیں سیلاب زدگان کی امداد اور انکی دوبارہ نارمل زندگی کے سٹارٹ کیلئے دولت چاہئے جو ہمارے پاس اس قدر نہیں کہ بغیر دوسرں کی مدد کے اپنی کوشش میں کامیاب ہو سکیں ہمارا کاسہ پھیلا ہی رہتا ہے غیر ممالک امداد دے دے کے تنگ آچکے کئی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں جسمیں غیر ملکی ہمارے وطن کے حکمرانوں کی لوٹ مار کا بھرپور اندا ز میں نہ صرف تذکرہ کرتے ہیں بلکہ برا بھی کہتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ قیام کے بعد ا ب تک ملک قرض پر ہی چل رہا ہے میڈیا خبریں دیتا ہے تاکہ عوام تک حقیقت حال پہنچ جائے کہ قرض کی رقم معہ سود کس حد تک بڑھ چکی ہے یہ کیسا اسلامی ملک ہے کہ سود کاکاروبار ختم ہی نہیں ہوتا کیا معاشرہ اسلامی بنانے کے لئے کوشش کی گئی کیا ملکی قوانین خالصاً اسلامی بن چکے کیا اسلامی قوانین پر عملدرآمد ہوا ہے جتنی حکومتیں بنتی ہیں رہیں کسی نیاس جانب کا م نہیں کیا اگر کیا تو اسکے نتائج نظر نہیں آئے ۔ مغربی طرز حکومت اور مغربی قوانین نے کیا ایک اچھا معاشرہ بنانے میں کردار ادا کیا کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیاکے مصداق نہ ہم انگریز بن سکے اور نہ ہی بن سکتے ہیں ہاں جعلی انگریز معاشرے کا ایک طبقہ ضرور بنتا ہے جس کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر ہے وہ دکھاوے کیلئے شلوار قمیض او ر واسکٹ پہن کر بھی ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں وہ مفادپرست ٹولہ ہے جو روپ بدل بدل کر قوم کے وسائل پر قبضہ جمائے ہوئے ہے نیپال اور ملایشیا کے حالات سے سبق سیکھنے کا وقت ہے یہ آندھی کہیں ہمیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لے عوام غریب سے غریب تر ہو چکی ہے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو چکا ہے رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی جانی مالی نقصان اپنی جگہ مہنگائی کے اثرات بڑھنا شروع ہو چکے ہیں اشیائے ضرورت مہنگی ہو رہی ہے اشیائے خوردونوش بیچنے والے اپنی مرضی کے مطابق قیمت وصول کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ مال کم آرہا ہے یہ سچ ہے کہ موجودہ حالات انسانی زندگیوں کو مزید مشکل بنا چکے ہیں ہر سال اگر یہی کیفیت رہی تو کیا نتائج ہوں گے کمزور منصوبہ بندی تباہی سے بچا نہیںسکے گی موجودہ تجربے سے مستقبل کو محفوظ بنانے کا عمل ہونا چاہیے سدا بہار امداد پر چلنے والا ملک کس حد تک آفات سے اپنے آپ کو محفوظ کر سکے گا یہ تو شاید بڑے بڑے دماغوں والے ہی جانتے ہوں گے ان دماغوں نے اب تک تو ملک کی شریانوں سے خون ہی نچوڑا ہے اب شاید قوم ملک پر ترس کھائیں اور اس دولت کو اسی پر خرچ کر کے اسے خوشحال بنانے کا عزم کرلیںکہا جاتا ہے کہ شیر کے منہ کو انسانی خون لگ جائے تو وہ اسی کوشش میں رہتا ہے کہ موقع ملے تو پھر تازہ نوالہ حاصل کر لو ں رہنماؤں کے منہ کو بھی ہر حربے سے ملکی وسائل کو لوٹنے کا چسکا پڑا ہوا ہے کیا وہ اب اس عمل سے گزیز کرنے کا عہد کر سکتے ہیں اللہ نے اس اجنبی دنیا میں عجیب سفر پر ہمیں روانہ کیا ہے وہی اس سفر کو کسی بھی لمحے بغیر وجہ بتائے ختم کر سکتا ہے جواب دہ تو ہونا ہے اس وقت کو اگر ذہن کے افق پرتابندہ رکھیں تو تخلیق کا مدعا نظر آنے لگے گا واپسی کے سفر پر کچھ ساتھ تو لے کے جا نہیں سکتے یہاں کا کمایا ہوا خزانہ یہیں رہ جائے گا بڑے بڑے آنجہانی فانی کے فانی یہی رہے اپنی زندگی کو اپنی ملکیت سمجھنے والے ظلمات میں رہتے ہیںغور کیوں نہیں کرتے کہ کیا خالق کی منشا کے مطابق زندگی گزر رہی ہیوہ بھی بحیثیت معاون یا رکاوٹ اگر کسی قلب اور ذہن میں سچ اور حق کی روشنی چمک اٹھے تو اصلاح کیلئے اسے غیبی اشارہ سمجھنا چاہیے کہ اصلاح کی گنجائش کا موقع مل گیا اپنے انداز اور اصلاح کا موقع لیکن ہمیں تو فرعونی خمار میں اس طرف دھیان دینے کا وقت ہی نہیں ۔ ملک اور قوم سے صحیح معنوں میں محبت خدام قوم کو راہ راست پر لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے اگر رہنماؤں کے اندر جائز ناجائز خفیہ اور غیر خفیہ دولت کو اکٹھا کرنے کا جذبہ ختم ہو جائے تو سرکار دوعالمۖ کا امتی ہونے کا احساس غالب آنے میں کچھ بھی مانع نہیں ہوسکتا جب تک ہمیں دنیا میں آنے اور پھر واپس جانے کا شعور نہیں ہوتا اس وقت تک مشکل ہی رہے گی محسن کی قدر کرنا اگر ہمیں آ جائے تو معاشرے کو کامیابی کی طرف گامزن ہونے میں وقت نہیں لگتافانی کی محبت فنا کر دیتی ہے اس کا احساس نہیں ہماری زندگی فانی اشیا سے محبت کرنے اور اسکے حصول میں گزر جاتی ہے نتیجہ ناکامی کی صورت میں برآمد ہوگااصل میںذات سے محبت ہونا ضروری ہے تقلید کیلئے مذہب یا قانون کا ہونا ضروری ہوتاہے مذہب میں اطاعت ہے محبت ذات سے ہوتی ہے اطاعت ڈسلپن کی قانون کی شریعت سے ہوگی اگر محبت خالص ہے تو پھر ذات مصطفی ۖسے ہوگی جن کی راہ پر چلنے سے دین اور دنیا میں کامیابی یقینی ہے سرکارۖنے تو موقع ہونے کے باوجود کسی کو بددعا نہیں دی اپنی زندگی کو انسانو ں کے لیے مشعل راہ بنایا لیکن ہم ان سے محبت کے دعویدار بھی ہیں اور ہمارے اعمال میں شیطانیت کا رنگ بھی نمایاں ہے یہ دوغلا پن ہے زندگی انسانوں کے ساتھ گزارنا ہے تنہائی میں گزارنے کا حکم نہیں انسانوں سے باہمی تعلقات اللہ نے بیان فرما دیے جب تک ان پر عمل نہیں ہوگا،معاشرہ فلاحی نہیں کہلا سکتا معاشرے پر حکمرانی کرنے والوں پر ضروری ہے کہ وہ ان کی زندگی اور ان کے معاملات پر انگلی نہ اٹھے رہنماؤں کو نہ اللہ یاد ہے نہ موت اگر انہیں یہ احساس ہو کہ ہم نے ایک دن واپس چلے جانا ہے اور سخت محاسبے کا سامنا کرنا ہے تو شاید ان کے اعمال پر فرق پڑے اب تک تو قوم بے حس رہنماؤں کے قبضے میں ہے بے رحم وقت کے ہاتھوں وقت بہت پیچھے چلا گیا ہے حادثات اور واقعات جھنجھوڑ رہے ہیں کہ راہ راست پر آ جاو ورنہ قصہ پارینہ بن سکتے ہو صاحب اقتدار کو ایمانداری سے ملک کی ترقی خوشحالی اور عوام کی مشکلات کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے پبلسٹی کے زور پر نہ تو عوام کو دھوکا دیا جا سکتا ہے اور نہ ضمیر مطمئن ہو سکتا ہے بے پناہ کرپشن کے خاتمے کیلئے سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے بے رحم سزاؤں کو نافذ کرنا ضروری ہے پچیس کروڑ کی آبادی میں ایسے انسانوں کا ملنا مشکل نہیںجو ایماندار ہوں اور محاسبے کے فرائض کیلئے موزوں بھی تاکہ وہ کرپٹ افراد کا محاسبہ کر سکیں اور معاشرے کو کرپشن سے پاک کریں،ہمت مرداں مدد خدا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے