کالم

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور دو طرفہ تعلقات

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان دو روزہ سرکاری دورے پر گزشتہ روز لاہور پاکستان پہنچ گئے۔جہاں وزیراعلی پنجاب مریم نواز اور گورنر سردار سلیم حیدر نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ بعد ازاں انہوں نے نزار اقبال پر بھی حاضری دی۔ ان کا مزارِ اقبال پر حاضری دینا اس ثقافتی قربت اور فکری وابستگی کی علامت ہے جو دونوں ممالک کو تاریخی طور پر جوڑے ہوئے ہیں۔مسعود پزشکیان گزشتہ دو برسوں میں پاکستان کا دورہ کرنے والے دوسرے ایرانی صدر ہوں گے، یہ دورہ دراصل جولائی کے آخری ہفتے کے لیے طے تھا۔اپریل 2024 میں سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا، یہ دورہ ابراہم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں وفات سے ایک ماہ قبل ہوا تھا۔ایرانی صدر کا دورہ پاکستان، دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان دیرینہ اور مسلسل فروغ پاتے تعلقات کی کڑی ہے جو علاقائی تعاون، باہمی احترام اور مشترکہ خوشحالی کے اصولوں پر قائم ہیں۔ معزز مہمان پیزشکیان کا صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا باضابطہ دو طرفہ دورہ ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ تہران، اسلام آباد کو ایک اہم علاقائی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔یہ دورہ اعلی سطحی سیاسی روابط کو مزید مستحکم کرنے اور گزشتہ قیادتوں کے تبادلوں سے حاصل ہونے والی پیش رفت کو تقویت دینے میں مددگار ثابت ہوگا، جیسا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی مئی 2024 میں ایران میں سابق مرحوم صدر رئیسی کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شرکت اور رہبرِ اعلی آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔آج 3 اگست کو اسلام آباد میں ایرانی صدر، وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کریں گے۔ توقع ہے کہ تجارت، سرحدی نظم و نسق، توانائی اور ثقافتی تعاون کے شعبوں میں متعدد مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوں گے، جو دونوں ممالک کے عملی نتائج کے عزم اور اقتصادی انضمام کو مزید گہرا کرنے کا ثبوت ہوں گے۔ بات چیت میں دو طرفہ تجارت کو 3 ارب ڈالر کی موجودہ سطح سے آگے بڑھانے، سرحدی منڈیوں کو فعال کرنے اور سرحد پار بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے گی۔ یہ اقدامات جغرافیائی قربت کو اقتصادی مواقع میں بدلنے کیلئے دونوں ممالک کے پختہ عزم کا اظہار ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرقِ وسطی میں تنا کی صورتحال ہے، اور اس کے پس منظر میں پاکستان اور ایران کے مابین مستقل رابطہ کاری ایک مشترکہ وژن کی عکاسی بھی ہے ایک ایسا وژن جو استحکام، عدم جارحیت اور تعمیری شکل پر مبنی ہے۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے حالیہ مشاورتی رابطے، نیز ایرانی تنصیبات پر حملوں کے خلاف پاکستان کا اصولی موقف، دونوں ممالک کے درمیان اس تزویراتی ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے جو باہمی خودمختاری اور علاقائی امن پر استوار ہے۔ بطور قابلِ اعتماد ہمسائے، ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات محض جغرافیہ پر مبنی نہیں بلکہ احترام، معاشی تکمیل اور ایک مستحکم اور باہمی تعاون پر مبنی علاقائی نظام کے قیام کی مشترکہ ذمہ داری کے اصولوں پر مبنی ہیں ۔ پاک-ایران تعلقات ایک حساس توازن کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک طرف ہمسائیگی، ثقافت اور مشترکہ مفادات کا رشتہ ہے، تو دوسری طرف سلامتی کے گہرے خدشات، علاقائی اتحادی دبا اور باہمی عدم اعتماد کی دیوار حائل ہے۔ یہ تعلقات مستقل ارتقا پذیر ہیں، جہاں کشیدگی اور مصالحت کے ادوار بدلتے رہتے ہیں، لیکن جغرافیائی حقیقت دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ خطے کی سلامتی کے لیے ان تعلقات کا مستحکم رہنا اہم ہے۔پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کی تاریخ مشترکہ ثقافتی ورثے، مذہبی رشتوں اور علاقائی مفادات کے نازک توازن پر استوار ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات کا سفر قیامِ پاکستان سے لے کر موجودہ دور تک مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو آزاد مملکت تسلیم کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ مارچ 1950 میں شاہ ایران محمد رضا پہلوی پہلے غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کی آمد پر پہلی بار پاکستان کا قومی ترانہ(جو فارسی زبان میں ہے)بجایا گیا، جو دونوں ممالک کے گہرے ثقافتی ربط کی علامت تھا۔1948 میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے انتہائی اہم شخصیت راجہ غضنفر علی کو ایران کا سفیر مقرر کیا۔ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی پہلے غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے 1950میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔1950میں ہی پاکستان اور ایران کے درمیان دوستی کا معاہدہ طے پایا۔1950 سے 1979 تک ایران پاکستان کو تیل اور سفارتی مدد کرنے والا ہم ملک تھا۔1965 اور 1971کی پاک بھارت جنگ میں بھی ایران نے پاکستان کی حمایت کی تھی اور پاکستان کو اسلحہ فراہم کیا۔مختصرا یہ کہ پاکایران تعلقات روحانی قربت اور زمینی اختلافات کے بیچ سفر کرتے ہیں۔ تاریخی یکجہتی، ثقافتی ہم آہنگی اور مذہبی رشتے مضبوط اساس فراہم کرتے ہیں، جبکہ علاقائی سیاست، سلامتی کے مسائل اور بیرونی دبا رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اعلی سطحی سفارتی تعلقات اور اقتصادی اہداف مستقبل کے لیے امید افزا ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے