ایران کے ساتھ ہماری طویل سرحد کے مختلف مقامات پر انتشار، لاقانونیت اور کسی قدر افراتفری کا فائدہ ایران کی بے راہ رو تجارت مسلسل اٹھا رہی ہے۔اس تجارت کو ہمارے ہاں تو اسمگلنگ قرار دیا جاتا ہے، ایران میں شاید ”حکمت عملی”کہا جاتا ہو؟ ہمارے بلوچستان سے متصل ایران کا صوبہ سیستان غالباً ایران کا سب سے پسماندہ اور قدرے بچھڑا ہوا صوبہ خیال کیا جا سکتا ہے ۔ اس صوبے کا اسی طرح رہنا ایران کا اندرونی معاملہ ہے،اور مجھے اس پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا،ایران ایک آزاد و خودمختار ملک ہے اور میں اس کی آزادی و خودمختاری کا احترام کرتا ہوں۔لیکن بہرحال یہ بات ضرور سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے سرحدی علاقوں کی پسماندگی مقامی اور بین الاقوامی اسمگلروں کے لیے ایک دعوت ولیمہ کی طرح سے ہوا کرتی ہے۔یہی وہ علاقے ہیں،جہاں سے افغانستان اور پاکستان میں ایرانی تیل اور دیگر مصنوعات کی ”متوازی از قانون” تجارت ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس عمل میں دونوں اطراف،بلکہ تینوں اطراف کے اہلکار سہولت کاری بھی کرتے اور جیبیں بھرتے ہوں گے۔ایسے میں اگر ایران خلوص نیت سے چاہے تو اس بدنظمی اور اسمگلنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔لیکن یہ ”تجارت”خود ایرانی معیشت کے لیے ایک بڑا سہارا بھی خیال کی جاتی ہے۔ ایسے ماحول اور ایسی دھند میں لپٹی فضا میں بھارت بھی اپنے کاریگر براستہ ایران پاکستان کی طرف بھیجتا اور بلوچستان میں بدامنی کے لیے استعمال کرتا رہتا ہے۔کلبھوشن یادیو ایک بڑی مثال ہے جو چاہ بہار کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا تھا اور دھر لیا گیا ۔ دونوں ہمسایہ ریاستوں کے آپس میں گلے شکوے بھی ہوں گے،لیکن یہ گلے شکوے ڈرون حملوں اور میزائیل گرانے سے حل نہیں ہو سکتے۔ ایران کے بہترین علم میں یہ بات ضرور ہو گی کہ پاکستان کی تحویل میں بھی انواع و اقسام کے میزائیل بہ مقدار وافر موجود ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ بوقت ضرورت استعمال بھی کئے جا سکتے ہیں۔لیکن اگر دونوں ملک اپنے اپنے میزائیل چلا کر بھی بالآخر مزاکرات کرنے پر ہی مجبور ہوں گے تو پھر سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایران کو یہ میزائل داغنے والی ”چول” مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ چول پنجابی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی میں نہایت تھکا ہوا، گرا ہوا، غیر معیاری اور گھٹیا کام شامل ہوتا ہے اور امید کی جانی چاہیئے کہ ایرانی پاسداران انقلاب سمجھ چکے ہوں گے کہ پاکستانی حدود میں میزائل حملہ کر کے انہوں نے کیا چول ماری ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ؛ جدید دور نے ملکوں کے مابین کھلی جنگ کے ذریعے تنازعات طے کرنے کے عوض دہشت گرد گروہوں کے ذریعے بین السطور مجادلے کو رواج دیا ہے، اگرچہ اس ”ٹیکنالوجی”کی ایجاد کا سہرا بھی امریکہ ہی کے سر جاتا ہے، وہی امریکہ جس نے شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی قیادت میں ایران کو مشرق وسطی کی سرداری کا تاج پہنا رکھا تھا،وہی امریکہ جس کے درپردہ ایما پر شاہ ایران رضآ شاہ پہلوی کے خلاف بائیں بازو کی جدوجہد اور تگ و تاز کا پھل روحانیان کی جھولی میں ڈال کر، تہران میں امریکی سفارت خانے پر ایرانی نوجوانوں کے قبضے کی دھول میں اپنے کردار کو کامیابی سے چھپا بھی لیا گیا تھا۔اور آنے والے سالوں میں امریکہ ایران کو عالم عرب کے سامنے ایک ڈراوے کے طور پر پیش کرتا رہا۔وہی امریکہ جس نے عراق سے حملہ کروا کر ایک طرف ایران کے انقلاب کو دوام دیا،دوسری طرف عراق اور ایران دونوں کو ایک ہی توسط سے اسلحہ بیچ کر اپنی جیب گرم کیے رکھی۔بالکل بالکل وہی امریکہ۔ پھر ہوا یوں کہ محلے کے مڈل کلاس گھروں میں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک دوسرے کو چٹکیاں کاٹنے کے شوق نے بہت سارے متوازی کاروبار بھی وضع کر لیے۔جن میں باہم مشاورت اور مخفی رضامندی والی اسمگلنگ بھی شامل ہے۔ان ساری حرکتوں کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔نہ تو دوسرے کے ناک میں انگلی ڈال کر گھمانی چاہیئے اور نہ ہی دوسروں کو ایسا کرنے کی اجازت دینا مستحسن بات ہے۔ ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ؛ پاسدارانِ انقلاب نے پاکستانی حدود میں جیش العدل نامی عسکریت پسند تنظیم کے ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے.پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے نتیجے میں دو بچے ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔پاکستان کی طرف سے حسب معمول سخت غصے کا اظہار کیا گیا ہے اور اب پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق حکومت کی جانب سے ایران سے اپنا سفیر بُلانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اسلام آباد میں ایرانی سفیر احتیاطاً پہلے ہی سے ایران گئے بیٹھے ہیں اور فی الحال پاکستان واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اگرچہ ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، لیکن بین الاقوامی سرحد کی پائمالی کرتا ہوا میزائل حملہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے حد درجہ سنگین اور خطرات سے پر وقوعہ ہے۔اس ساری صورتحال میں خواجہ الطاف حسین حالی کی اس تجویز کو سامنے رکھتے ہوئے کہ؛
حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور رہ گئی ہے یہی اک فتح و ظفر کی صورت
ہمیں یہاں اپنی سیکیورٹی کی زمینی و آسمانی صورتحال کا محتاط انداز میں ازسرنو جائزہ لینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ سب سے پہلے اور سب سے مقدم پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی چوکسی، باخبری اور مجموعی کارکردگی پر توجہ دینے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ شیطان کے کان بہرے ہوں مگر یہ کیا بات ہوئی کہ محلے میں جس کا بھی جی چاہتا ہے،ہمیں جسم کے کسی نہ کسی حصے میں چٹکی کاٹ کر چلا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں ہائے، اوئی، اففف کی گردان سے نکل کر خود کو دنیا کے سامنے ایک مکمل” مرد ریاست ” کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ ایک طرف بھارت کی حرکتیں، دوسری طرف احسان ناشناس افغانستان کی مسلح چھیڑ چھاڑ،لیکن ایسے ماحول میں ایران سے تو یہ توقع ہر گز ہرگز نہیں تھی، کہ وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے کو میزائل حملوں کا نشانہ بنائے۔میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی پاکستانی کو ایران سے یہ امید نہیں تھی۔
کالم
ایران سے یہ امید نہیں تھی
- by web desk
- جنوری 19, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 390 Views
- 1 سال ago