کالم

ایران میں انتخابات کے نتائج

ایران کے صدر رئیسی کے المناک انتقال کے باوجود ایران میں عام انتخابات پرامن طریقے سے منعقد ہوئے۔ واضح اکثریت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے صدارتی انتخابات دو دور میں مکمل ہوتے ہیں۔ ایک سانحہ کے بعد انتخابات کا پرامن عمل پاکستانیوں کے لیے سبق ہے کہ قومیں ہمیشہ بہادری اور دانشمندی سے کام لیتی ہیں۔ وہ ہنگامہ آرائی نہیں کرتے بلکہ بحران اور بحران پیدا کرنے والوں کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بحران کو شکست دیتے ہیں۔ایران کے صدارتی الیکشن میں مسعود پزشیکان نے کامیابی حاصل کرلی۔غیر ملکی خبر ایجنسی مطابق ایرانی صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے (رن آف)میں اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان ایک کروڑ 63 لاکھ ووٹ لے کر نئے صدر منتخب ہوگئے جب کہ ان کے مدمقابل رجعت پسند سعید جلیلی ایک کروڑ 35 لاکھ ووٹ لے سکے۔ ایرانی وزارت داخلہ نے مسعود پزشکیان کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مسعود پزشیکان نے اکثریتی ووٹ حاصل کیے ہیں۔نئے صدر مسعود پزشیکان سرجن اور قانون ساز ہیں اور وہ مغربی ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ 69سالہ مسعود پزشیکان ہارٹ سرجن ہے وہ دوسری اصلاحاتی حکومت میں صحت اور طبی تعلیم کے وزیرتھے، وہ 5 بار ایرانی پارلیمنٹ کے رکن اور ایک بار سے اس کے نائب صدر بھی رہے ہیں۔مسعود پزشکیان ایران کے علاقے ماہ آباد میں پیدا ہوئے، ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے تبریزیونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ڈاکٹر مسعود نے دوسرے راو¿نڈ میں مذہبی قدامت پسند کے طور پر مشہور اپنے مخالف کو شکست دینے کے بعد انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ایرانی ہارٹ سرجن مسعود پازشیکان صدارتی انتخابات میں ایرانی عوام کی جانب سے واضح مینڈیٹ کےساتھ کامیاب ہوئے ہیں۔ اصلاح پسند امیدوار نے ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں اپنے مخالف رجعت پسند سعید جلیلی کو شکست دی، جلیلی کے 1.35 ملین کے مقابلے 1.63 ملین ووٹ حاصل کیے۔ پازشیکان مغرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور ایران میں مثبت تبدیلی لانے کا وژن رکھتے ہیں۔ پازشیکان وہ اس سے قبل وزیر صحت اور طبی تعلیم، پانچ بار رکن پارلیمنٹ اور نائب صدر رہ چکے ہیں۔ صدر کے طور پر پازشیکان کی اہم ترجیحات میں سے ایک ایران میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے سخت قوانین کو حل کرنا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خواتین کو حجاب نہ پہننے کی سزا دینا بالکل بھی نہ پہننے سے زیادہ غیر اخلاقی ہے، اس موقف کو ترقی پسند ایرانیوں کی حمایت حاصل ہے۔ پازشیکان کا مقصد بھی عالمی سطح پر ایران کی تنہائی کو ختم کرنا ہے، خاص طور پر اس ملک کے خلاف امریکی پابندیوں کی روشنی میں۔ ان کی صدارت کو ایران اور پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کےساتھ تعلقات کے لیے ایک ممکنہ موڑ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پازشیکان کی جیت ایرانی انتخابی عمل کی شفافیت کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام میں اصلاحات کی بڑھتی ہوئی خواہش کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ اگرچہ صدر کا کردار اہم ہے، ایران کا سیاسی نظام طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کےلئے تشکیل دیا گیا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پالیسیوں میں کسی بھی تبدیلی پر غور سے غور کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ پازشیکان کا انتخاب ایرانی سیاست میں پیشرفت اور کھلے پن کی طرف اشارہ کرتا ہے، آنے والے سالوں میں مثبت پیشرفت کے امکانات کے ساتھ۔ پازشیکان کے عہدہ سنبھالتے ہی، ایران اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے ساتھ زیادہ مصروفیت کی امیدیں بہت زیادہ ہیں۔ اصلاحات کے لیے ان کی وابستگی اور نظم و نسق کے لیے ان کا جامع نقطہ نظر ایک زیادہ متحد اور خوشحال ایران کی جانب ایک راستہ بتاتا ہے۔ صدر مسعود پازشیکان کی قیادت میں ایران کا مستقبل روشن نظر آتا ہے، کیونکہ یہ ملک چیلنجوں سے گزر رہا ہے اور ترقی اور ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے