تحریر !اسلم ممتاز
حال ہی میں خصوصی سرمایہ کاری کونسل(SIFC)کی جانب سے ایران پاکستان گیس پائپ
لائن منصوبے کو دو حصوں میں جلد از جلد حتمی شکل دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اگر
یہ منصوبہ جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو اس سے ایک طرف گوادر اور بلوچستان کے عوام
کو سستی گیس کی فراہمی ممکن ہو سکے گی جبکہ دوسری طرف ملکی توانائی بحران پر قابو
پانے میں بھی مدد ملے گی۔
ایران سے قدرتی گیس کے حصول کے لیے منصوبے پر بات چیت کا آغاز 1995 میں
ہوا جبکہ 2008ئ میں اسے حتمی شکل دی گئی جس میں بھارت بھی شامل تھا۔ابتدائی معاہدے
کے مطابق جنوری 2015 میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے مکمل ہونے کے
بعد تہران نے اسلام آباد کو گیس کی فراہمی شروع کرنی تھی۔ پاکستان نے اپنے حصے کی 781
کلو میٹر طویل پائپ لائن پر 2013ئ میں تعمیر کے کام کا آغاز کیا تھاتاہم اسے تاحال مکمل نہیں
کیا جا سکا۔
2008ئ میں پائپ لائن منصوبے پر سات ارب پچاس کروڑ ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا
تھا۔ بھارت نے 2009ئ میں خود کو اس منصوبے سے الگ کر لیا جس کے بعد پاکستان اور
ایران نے دوطرفہ طور پر اس معاہدے کو آگے لے جانے کا فیصلہ کیا اور مارچ 2010ئ میں
انقرہ میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن معاہدے پر حتمی دستخط ہوئے۔پاکستان اور ایران کے
صدور نے مارچ 2013 میں اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کیا تو اس منصوبے کو امن پائپ
لائن کا نام دیا گیا۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ حکومت نے اس منصوبے کو اب دو مرحلوں میں مکمل کرنے کا
فیصلہ کیا ہے جس میں سب سے پہلے گوادرسے ایرانی سرحد تک 81کلومیٹر پائپ لائن بچھائی
جائے گی۔بعد ازاں اسے گوادر سے نواب شاہ تک بڑھادیا جائے گا۔ پہلے حصے کی تکمیل پر
گوادر کو گیس کی فراہمی نہایت آسان ہو جائے گی۔ اس طرح وہاں کے عوام سستی اورمعیاری
گیس سے مستفید ہوسکیں گے۔
اگرچہ ماضی میں یہ منصوبہ التوا کا شکار رہا تاہم مثبت پیش رفت یہ ہے کہ ایران کی
جانب سے اس منصوبے کو مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن میں ستمبر2024ئ تک توسیع کردی گئی
ہے۔ایرانی قیادت کی طرف سے پاکستان کو قانونی اور تکنیکی مہارت کی پیشکش بھی کی گئی
ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایران اس منصوبے کو مکمل کرنے کا خواہاں ہے۔
گزشتہ ماہ سرحدی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے دونوں ملکوں
کے درمیان سفارتی تعلقات مختصر وقت کے لیے منقطع ہوئے لیکن اب یہ تعلقات معمول پر آ
چکے ہیں۔دونوں ممالک باہمی اختلافات بھلا کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو خطے
میں قیام امن کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔
ایران پاکستان گیس منصوبے سے ملک میں خوشحالی کی امید کی جا سکتی ہے تاہم ملک
میں موجود تیل و گیس کے ذخائر سے استفادہ کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حال ہی میں
ملک کے کچھ حصوں سے دریافت ہونے والے گیس کے ذخائر جن میں بلوچستان کے ضلع
کوہلو میں گیس کے نئے ذخائر بھی شامل ہیں، ایک خوش کن پیش رفت ہے۔ابتدائی تخمینے کے
مطابق ان ذخائر سے یومیہ 64لاکھ مکعب فٹ تک گیس حاصل ہوگی۔
اس سے قبل صوبہ سندھ میں ٹنڈواللہ یار کے مقام پر دریافت شدہ ذ خائر سے تیل کے یومیہ
350بیرل اور گیس کی 80لاکھ مکعب فٹ پیداوار کی خوشخبری ملی تھی۔اسی
طرح11جون2024 ئ کو شمالی وزیرستان میں ایک سلسلہ دریافت ہوا تھا جس سے یومیہ 6لاکھ
مکعب فٹ گیس حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا۔
ملک کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے تیل و گیس کے ذخائر کی دریافت اس بات
کی دلیل ہے کہ قدرت نے سر زمین پاکستان کو بے شمار معدنیات اور قدرتی ذخائر سے نوازا
ہے۔ ملک کے بیشتر حصے ایسے ہیں جہاں قدرتی تیل اور گیس کی زیر زمین پائی جانے والی
وافر مقدار سے ملکی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اس وقت ملک کے بیشتر حصوں میں 27ارب بیرل تیل اور
150ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہے۔ اگر ان ذخائرسے بروقت استفادہ کیا جائے تو
ملک بھرسے تونائی بحران کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔