کالم

ایران کو اب کیا کرنا چاہیئے

کیا یہ بات سچ ہے کہ اہم ترین واقعات اور بہت اہم شخصیات کے قتل کی تفصیلات اور حقائق ہمیشہ مستور ہی رہتے ہیں۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی پراسرار قتل نے صورت حال کی سنگینی میں بے حد اضافہ کردیا ہے ۔ ایک ہزار سے زائد سوالات اپنا اپنا جواب تلاش کرنے میں سرگرداں نظر آ رہے ہیں ۔ اگر اسماعیل ہانیہ قطر جیسے عرب ملک میں مکمل حفظ وامان کےساتھ رہ رہے تھے اور اس کے باوجود کہ قطر ہی میں امریکی اڈا بھی ہے ،ان کی سلامتی پر کبھی سوالیہ نشان نہیں لگا، تو کیا وجہ ہے کہ؛ ایران جیسے محفوظ ملک میں کہ جہاں وہ صدر کے مہمان کی حیثیت سے مدعو تھے، نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور سپریم لیڈر سے ملاقات کے فوراً بعد ایران کی طرف سے فراہم کی گئی محفوظ رہائش گاہ میں اپنے کمرے کے اندر اپنے محافظ سمیت شہید کر دیئے گئے۔ان کی شہادت کا اعلان فوراً کر دیا گیا۔گویا اس روز کی مرکزی خبر نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی بجائے ایران کے ایک اہم ترین مہمان کی موت تھی۔پوچھا جا سکتا ہے کہ؛ جو اپنے گھر میں مہمان کی حفاظت نہ کر سکیں، کیا وہ دشمن کے دوست اور سہولت کار ہوتے ہیں؟ جواب بڑا واضح ہے اور اگر علامہ اقبال کا ڈکشن استعمال کیا جائے تو کھلے گا کہ؛
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
ایران کے روحانیان مابعدالطبیعیات میں کوئی بھی مقام رکھتے ہوں ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنے دشمنوں سے بہت پیچھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ یہ ڈرون حملہ تھا؟ یہ میزائل حملہ تھا؟ یہ کمرے میں پہلے سے نصب بم پھٹنے کا نتیجہ تھا؟ یا یہ قریبی فاصلے سے نشانے پر لگنے والا کوئی ایسا میزائل نما تھا کہ جس میں سات کلو گرام دھماکہ خیز مواد موجود ہو؟۔یہ قیاس آرائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک خود ایران پورے ثبوت اور شواہد کے ساتھ اصل حقیقت سے پردہ نہ اٹھا دے۔ ایران کی طرف سے سیدھا اشارہ اور الزام اسرائیل پر لگایا گیا۔ چونکہ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی طرف سے حماس اور حزب اللہ کے رہنماو¿ں کو ایک تسلسل کے ساتھ قتل کرنے کے اعترافات موجود ہیں،اور منطقی طور پر بھی اسماعیل ہانیہ کے اس طرح اور اس قسم کے محفوظ مقام پر خاتمے سے اسرائیل کی دلچسپی اور مفاد سامنے کی بات ہے۔ اور امر واقعہ تو یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی دہشت گرد ریاست کو امریکہ اور یورپی ممالک کے علاوہ عرب ریاستوں اور دیگر مسلمان ملکوں کی صالح قیادتوں،حکومتوں اور پس منظری قوتوں کی مکمل تائید و حمایت بھی ایک طرح سے حاصل ہے ۔ وہ ایک طرح کی حمایت یہ ہے کہ اسرائیل کے غزہ میں مظالم اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر آنکھیں اور منہ زور سے بند رکھے جائیں۔حد تو یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں بھی اسرائیلی مظالم کےخلاف بڑے بڑے جلوس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔دنیا میں اہلیان غزہ کے حق اور حمایت میں جتنے احتجاجی مظاہرے ہوئے ،وہ غیر مسلم ممالک میں ہوئے اور مذہب کے حوالے سے نہیں ، انسانیت کے حوالے سے ہوئے۔یقینا انسانیت کا حوالہ ہی سب سے مضبوط و محکم حوالہ ہے۔ ایسے میں ہانیہ کی شہادت کو ایرانی سیکیورٹی،انٹیلی جنس اور ریاست کی ناکامی یا نامحکمی خیال کیا جا سکتا ہے ۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل نے یکے بعد دیگرے حماس اور دیگر مزاحمت کار لیڈرز کو ان کے کمپاونڈ پر حملہ کر کے شہید کیا ہے، اسمعیل ہانیہ کی حفاظت اور آئرن شیلڈ کو یقینی بنانا ایران کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ آخر قطر میں بھی تو اسماعیل ہانیہ کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا تھا نا۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ ؛اگر اسرائیلی رسائی ایران کے اندر اتنی گہرائی تک جا چکی ہے، تو پھر جو نشانہ نہیں بن رہے، ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ یہ حملہ انہتر سالہ نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کےلئے ایک خطرناک پیغام بھی ہے۔ کیا ایک یونیورسٹی پروفیسر ایرانی روحانیان کی ترجیحات پر پورا اتر پائے گا؟ کیا تبریز کا ہارٹ سرجن ملاو¿ں کا دل جیتنے میں کامیاب ہو سکے گا؟ سیاسی اور سماجی اصلاحات کا جو تصور مسعود پزشکیان رکھتا ہے ،وہ کبھی روبہ عمل آ سکے گا؟ ان تمام سوالات کا تعلق ایران کے اندرونی معاملات سے ہے، اور ان کا جواب آسان نہیں ہے۔لیکن اس طرف اشارہ ضرور کرتا ہے کہ؛ ایران کے پاسداران انقلاب کی صفوں کا بہ احتیاط جائزہ لینا نئے ایرانی صدر کے لیے ایک اہم اور حساس ہدف ہو گا۔اسماعیل ہانیہ جیسے مہمان کا ایرانی حفاظتی حصار کے اندر قتل اندرونی مدد اور شمولیت کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا ۔موجودہ صورت حال کی نزاکت اور پیچیدگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ اب ایران کیا کرنا چاہیے؟ ایران کو سب سے پہلے اپنے غصے کا رخ اندرونی معاملات کی تصحیح و ترتیب نو کی طرف موڑ لینا چاہئے۔اس خطے میں تہران یہودی آبادی کا ایک بڑا شہر ہے۔پھر نئے صدر سے مختلف خیالات اور رجحانات رکھنے والے عمائدین کی بھی کمی نہیں۔حلف وفاداری کے واقعے کو اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے جوڑ کر نئے ایرانی صدر کو مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ ایران کے پاس براہ راست جنگ کا آپشن موجود نہیں ،اور میرے خیال میں نہ اس کی ضرورت ہے۔اس وقت حماس ، حزب اللہ اور حوثی ملیشیا کو ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت یکساں اور باہم مربوط حکمت عملی پر قائل اور مائل کرنا ایران کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اسرائیل نے اگرچہ اسماعیل ہانیہ کے قتل کا اعتراف نہیں کیا ،لیکن واضح طور پر اس کی کوشش اور خواہش ہو گی کہ اس جاری جنگ کو لبنان تک توسیع دے کر حزب اللہ کے خاتمے کی کوشش کرے۔اسی طرح ایران کے بعض حساس دفاعی منصوبے بھی اسرائیل کا ہدف ہو سکتے ہیں ۔ میرے خیال میں اس وقت حزب اللہ کو محاربے سے دور رکھنا چاہیے،اسکے باوجود کہ دشمن نے اہم رہنماو¿ں،کمانڈروں کو تاک تاک کر نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے۔دشمن کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ جنگ اور غارت گری کے اسی سلسلے میں حزب اللہ کو بھی لپیٹ کر ختم کر دیا جائے۔ایران کے اندر دشمن کی رسائی پریشان کن اور حد درجہ نقصان دہ ہے۔اس کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ جب دشمن حملے یا انتقام کا منتظر ہو تو اسے انتظار کی اذیت کے حوالے کر دینا چاہیئے۔یہ جنگ صرف اسرائیل نہیں،انسانی حقوق کا عالمی ٹھیکے دار خود لڑ رہا ہے۔ لہٰذا ابھی ایران کو اپنے تحفظ اور اپنی صفوں کو درست کرنا چاہئے ۔ جہاں تک نصف جہان کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے تمام فریقوں کو صاف صاف بتا دینا چاہئے کہ؛یہاں حملے کی صورت میں ردعمل کیا اور کہاں پر ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے