یک ایسے ماحول میں جب ایران عالمی برادری اور خطے میں تنہائی کا شکار ہے،اس نے پاکستان میں اعلانیہ جارحیت کر کے اپنے پاو¿ں پر نہ صرف کلہاڑی ماری ہے بلکہ ایک دوست پڑوسی اور برادر اسلامی ملک کےساتھ بگاڑ میں پہل کر ڈالی ہے ۔ یہ اس کی عاقبت نا اندیشی کا واضح ثبوت ہے۔اس اشتعال انگیز جارحیت کے دورس منفی اثرات مرتب ہونگے،جنہیں معمول پر لانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ منگل سولہ جنوری کی رات پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ہدف پر ایران کا میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ اس خطے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں بے چینی کا باعث بن گیا ہے۔اس حرکت کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ جائز اور صائب سفارتی رد عمل دیتے ہوئے جہاں ایک طرف پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسے اشتعال انگیز کارروائی قرار دیا ہے جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نقصان پہنچایا وہیں واضح کیا کہ ہم اپنی علاقائی سالمیت اور خودمختاری قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔پاکستان نے سفارتی ردعمل کے علاوہ ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے گزشتہ شب دشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس سے دہشت گردوں کا بھاری نقصان ہوا،ایران اس کی تصدیق کرچکا ہے۔ایرانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں میزائل اور ڈرون حملے پوری پاکستانی قوم کیلئے سخت تشویش اور صدمے کا باعث بنے ہوئے ہیں،اس کی بنیادی وجہ دونوں بردار مسلم ملکوں میں روز اول سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں گہرے تعلقات قائم ہیں ۔معیشت و تجارت ہی نہیں، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی رشتے قائم ہیں۔پوری پاکستانی قوم یہ سمجھتی ہے کہ اس خلاف ورزی کی ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے ۔ بلاشبہ دہشت گردی خطے کے تمام ملکوں کیلئے مشترکہ خطرہ ہے اور اسکی روک تھام مشترکہ باہمی کارروائی ہی سے ممکن ہے۔ اس میں دو رائے ہو نہیں سکتی کہ ایران کی جانب سے فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر ایک گھناو¿نا وار ہے۔ جس کے سنگین نتائج مرتب ہو ں گے۔ اس خلاف ورزی کے نتیجے میں ایران کی کم فہم حکومت پر مزید دباو¿ بڑھے گا اورایران مخالف قوتوں کے بیانیہ کو تقویت ملے گی،اسرائیل اور امریکہ کا رد عمل اس کی گواہی ہیں۔ حملے کی تمام تر ذمہ داری ایرانی حکومت،آ ئی آر جی سی(پاسداران انقلاب) اور ایرانی انٹیلی جنس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان روابط کے متعدد چینل ہونے کے باجود بین الاقوامی قوانین کے برعکس کارروائی عمل میں لائی گئی جو کہ ناقابل معافی جرم ہے ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایران کے سیکورٹی ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایرانی حکومت کو سفارتی سطح پر سنگین سبکی کا سامنا ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اس اشتعال انگیز کارروائی پرمن گھڑت جواز پیدا کرنے کےلئے جیش العدل نامی تنظیم سے ایک جعلی بیان بھی جاری کروایا گیا۔ پاکستان اور بین القوامی برادری کاردعمل دیکھ کر ایران کو یقینا اپنی اِس غلط حرکت کا اندازہ ہو گیا ہوگا۔ جیش العدل ایک دہشت گرد گروپ ہے مگر اطلاعات ہیں کہ اسے Islamic Revolutionary Guard Corps ) آئی آر جی سی( چلا رہی ہے ۔ جیش العدل سے جھوٹا بیان دلوایا گیا کے یہ راکٹس غلطی سے بارڈر کے پار چلے گئے جبکہ اصل میں نشانہ ایران کے اندر ہی واقع جیش العدل کے اپنے کیمپ تھے۔ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ ایک دہشت گرد تنظیم خود پاسداران انقلاب یعنی آئی آر جی سی کی طرف سے فائر کئے جانے والے راکٹس وضاحتیں دے رہی ہے۔ایران کی اس کارروائی پر پاکستان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جو کہ بجا ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے کیمپس ایران میں موجود ہیں،کلبوشن یادیو بھی ایران سے آپریٹ کر رہا تھا۔ایرانی حکومت کا اگر یہ خیال ہے کہ پاکستان اِس واقع کو نظر انداز کرے گا اسکی کج فہمی ہو سکتی ہے۔ پاکستان نے جو ردعمل دیا ہے ےا آئندہ دے سکتا ہے اسکا حق اسکے پاس محفوظ ہے دفتر خارجہ کی طرف سے ایرانی ناظم الامور کی طلبی اور شدید احتجاج ریکارڈ کروایا جا چکا ہے، ایرانی سفیر کو واپس نہ آنے سے روک دیا ہے جبکہ کئی تجارتی وفود بھی واپس بلا لئے گئے ہیں۔پہلی بار ایران میں موجود پاکستانی سفیر کو واپس بلانا پاکستان کی طرف سے ایک انتہائی سخت ردعمل کے طور پہ آیا ہے۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں، اس سے پہلے بھی دراندازی اور دہشت گردی کے واقعات ایران کی سرزمین سے رونما ہو رہے ہیں جنوری 2023 میں ضلع پنجگور میں ایرانی سرحد کے باہر ایران کی جانب دہشت گردانہ سرگرمی کے دوران چار سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے اور جبکہ اپریل 2023 میں ایران کی طرف سے دہشت گردوں نے کیچ میں پاکستان فورسز پر حملہ کیا۔ہمیں یقین ہے کہ پاکستان قطعی طور پر عراق اور شام جیسا طرز عمل نہیں اپنائے گا اور اپنی قومی سلامتی اور سالمیت کےلئے ہر وہ قدم اٹھائے گا جو پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرے گا۔پاکستان ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کےساتھ بقائے باہمی کے اصول کو ترجیح دیتا ہے لیکن اپنی ملکی سلامتی کے تقاضوں سے قطعا ًغافل نہیں ہے ۔ایرانی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں،اس حرکت کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہشت گردی رک جائے گی،تو اس کا جواب نفی میں ہے۔اسکا اصل نقصان باہمی اعتماد کو پہنچا ہے،اور ایرانی حکومت ہی اس کی ذمہ دار ہے،ایران کو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرنی چاہیے۔
نگران وزیراعظم کاانتخابات کرانے کاعزم
عام انتخابات کاانعقادوقت کی ضرورت اورآئینی تقاضا ہے ۔اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے بھی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں اورباقی ادارے بھی اپنااپنا کام کررہے ہیں۔موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب میں التواءکی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے ،شیڈول پرعمل جاری ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔آج ملک میں مسائل کا ایک پہاڑ ہے۔ بحران ہی بحران ہیں۔ دنیا نگران حکومتوں کے ساتھ معاہدے نہیں کرتی۔ نگران حکمران مختصروقت کے لئے ہوتے ہیں اوروہ بڑی پالیسیاں نہیں بنا سکتے اس لئے۔ سیاسی اور معاشی استحکام کےلئے انتخابات کا 8 فروری کوانعقاد ناگزیر ہے ورنہ ہم بحرانوں اور مسائل میں پھنسے رہیں گے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کابیان خوش آئند ہے ۔گزشتہ روز نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک غیرملکی میڈیاکودیئے گئے انٹرویو میں کہاہے کہ انتخابات کرانا آئینی ذمہ داری ہے جو نگران حکومت خوش اسلوبی سے انجام دے گی، عوام کو ووٹ ڈالنے کا موقع فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئندہ انتخابات کے لیے آئینی تقاضے پورے کرچکا ہے، الیکشن سے پہلے قیاس آرائیاں ہوتی ہیں، انتخابات کے دوران عالمی مبصرین بھی پاکستان آئیں گے۔ معیشت کی بحالی ہماری اولین ترجیح رہی ہے، آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر رہے ہیں، اقتصادی اعشاریوں کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کے لیے معاشی اصلاحات ضروری ہیں۔پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، خطے کی صورتحال میں پاکستان کا بہت اہم کردار ہے، چین کے ساتھ ہمارے اسٹریٹجک تعلقات وقت کے ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر آنے والوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب پاکستان میں جو بھی آئے گا وہ قانونی دستاویزات کے ساتھ داخل ہو گا۔پاکستان 4دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، غیر قانونی مقیم غیر ملکی پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔
اداریہ
کالم
ایران کی قابل نفریں حرکت،پاکستان کا جائز ردعمل
- by web desk
- جنوری 19, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 716 Views
- 1 سال ago