اداریہ کالم

ایس آئی ایف سی ایپکس کمیٹی کا اجلاس

ملک میںبڑھتی دہشتگردی کو کنٹرول کرنے کیلئے وزیر اعظم ، کابینہ اور تمام وفاقی ادارے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں مگر بیرونی مداخلت کی وجہ سے دہشتگردی کم ہونے میں نہیں آرہی ، اس کے باعث جہاں ہمیں مالی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے وہاں جانی قربانیاں بھی دینی پڑ رہی ہیں ،دشمن ہے کہ ہر روز طاقت پکڑ رہا ہے اور ہر رو ز ایک نئے طریقے سے حملہ آاور ہوتا ہے ، اس کے توڑ کیلئے بھر بور طور پر کوششیں جاری ہیں ، ایپکس کمیٹی بھی اسی حوالے سے متحرک ہے ، چنانچہ دہشتگردی کا خاتمہ اس لیئے بھی ضروری ہے کہ ملک میں معاشی ابتری پھیلی ہوئی ہے اور ملک کی معیشت کا حال اس دہشتگردی نے نہایت برا کردیا ہے ، معیشت اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ غریب آدمی کیلئے دو قت کی روٹی کمانا مشکل ہے ،چنانچہ اس مقصد کے حل کیلئے وزیراعظم نے چاروں صوبائی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ وفاق کی مدد کریں اور آپس کے اختلافات کو ختم کرتے ہوئے مل بیٹھے اور ملک سے دہشتگردی اور معاشی بحران کے خاتمے کیلئے مل کر کام کریں۔ اسی حوالے سے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)کی ایپکس کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جس میںسابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ،چیف آف آرمی سٹاف،موجودہ و سابق نگران وزرا،وزرا اعلی اور اعلی حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں سابق نگران کابینہ کے ارکان کی موجودگی میں نئی وفاقی کابینہ کو بریفنگ دی گئی۔کمیٹی کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے سرمایہ کاری،نجکاری اور ملک کی مجموعی مائیکرو اکنامک استحکام کے حوالے سے اقدامات اور نمایاں کردار کے حوالے سے آگاہ کیاگیا۔کمیٹی نے وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں جون 2023 کے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قیام کے اقدام کو سراہا جو اب پالیسی سازی کی تشکیل کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے وزیر اعظم شہباز شریف، کابینہ اور وزرا اعلی کو نئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے اور پاکستان کو دنیا کی بہترین معیشتوں میں تبدیل کرنے میں ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔چیف آف آرمی سٹاف نے حکومت کے اقتصادی اقدامات میں مسلح افواج کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔انہوں نے ملک کو اس کے حقیقی پوٹینشنل کے مطابق ڈھالنے کے لئے محفوظ اور سازگار ماحول کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہاکہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل مشکل وقت میں آگے بڑھنے کا ایک راستہ ہے اور ملک کی خدمت کے لئے ماضی کی نسبت ایک پختہ عزم کی ضرورت ہے۔انہوں نے وفاقی کابینہ پر زور دیا کہ وہ مل جل کر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اقتصادی استحکام کے لئے ایک ٹیم بن کر کام کریں۔انہوں نے وسیع تر قومی اقتصادی ایجنڈے کے تسلسل پر نگران حکومت کا بھی شکریہ ادا کیا۔وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں مزیدکہا کہ آج کے اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندے اور ان کی قیادت موجود ہے، مختلف سیاسی جماعتوں کے منتخب وزرا اعلی، وزرا، سرکاری افسران، آرمی چیف اور ان کی ٹیم کی یہاں موجودگی پوری قوم کیلئے پیغام ہے کہ ہمارا اپنا اپنا منشور ہے اور اپنی اپنی ترجیح ہے لیکن پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور یکجہتی کیلئے آج ہم یہاں پر موجود ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ عبوری حکومت کے دور میں انہوں نے بڑی ذمہ داری اور محنت سے کام کیا، اس کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے جس طرح ہماری 16 ماہ کی حکومت کے دوران بھرپور تعاون اور مدد کی اسی طرح نگران حکومت کے دور میں بھی قومی مفاد میں تعاون کا مظاہرہ کیا جو مثالی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جون 2023 میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کے قیام کی تین چار بڑی وجوہات ہیں، ملک کے اندر اور باہر سرمایہ کاری کے حوالے سے مشکلات اور چیلنجز درپیش تھے، ان کو مختلف وجوہات کی بنا پر ماضی کے ارباب اختیار اور سرکاری افسران حل نہیں کر پاتے تھے، نیب کے حوالے سے جو معاملات رہے وہ سب کے علم میں ہیں اور سرخ فیتہ بدقسمتی سے ہمارے پاﺅں کی زنجیر بن چکا تھا، اس کے علاوہ استعداد میں کمی اور نااہلی بھی بہت بڑے چیلنج تھے۔ ایس آئی ایف سی کے قیام میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور جو کام پہلے کسی نے نہیں کیا اس کیلئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ معیشت کو بہت بڑے چیلنجز درپیش ہیں، ایس آئی ایف سی کی ایپکس کمیٹی کے 8 ماہ میں 9 اجلاس ہوئے ہیِں، اسکے علاوہ ایگزیکٹو کمیٹی کے بھی متعدد اجلاس ہوئے، ورکنگ کی سطح پر 200سے زائد اجلاس ہو چکے ہیں جن کے نتیجہ میں کئی ٹھوس فیصلے ہوئے اور ان پر عملدرآمد بھی ہوا ہے، ایس آئی ایف سی ایک اہم پلیٹ فارم ہے، ماضی میں جو تاخیری حربے اختیار کئے جاتے تھے اور جان چھڑانے کیلئے فائلیں ادھر ادھر کر دی جاتی تھیں اب وہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ 16 ماہ میں 13 رکنی مخلوط حکومت جب برسر اقتدار آئی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا، سب جماعتوں نے ملکر فیصلہ کیا کہ سیاست جاتی ہے تو جائے ریاست کو بچانا ضروری ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ ہو گیا ہے، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی وزارت خزانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس معاہدہ پر عملدرآمد کرایا جس کے نتیجہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ اب سٹاف سطح کا معاہدہ بھی ہو گیا ہے، امید ہے کہ آئندہ ماہ آئی ایم ایف سے 1.10 ارب ڈالر کی قسط مل جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہماری منزل نہیں ہے، ہم نے ملک میں معاشی استحکام لانا ہے اور میکرو سطح پر استحکام کو مزید مضبوط بنانا ہے اور یہ طے ہے کہ ایک اور معاہدہ کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے معاشی استحکام آ جائے گا اور ہماری شرح نمو میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا اور ملک میں خوشحالی کا انقلاب آ جائے گا، اس کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں جو مزید ایک پروگرام چاہئے اس کا دورانیہ دو یا تین سال ہو سکتا ہے، اس میں ہم نے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کرانی ہیں۔
وزیردفاع کاافغان حکام کودوٹوک پیغام
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے افغانستان کو پری فوٹ کی سہولت دے رکھی ہے اس سہولت کے ذریعے افغانستان کی منڈیوں تک مال پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے آجارہا ہے اوراس حوالے سے افغانستان کا زیادہ تر تجارت زمینی راستے سے بھارت کیساتھ بھی ہے مگر پاکستان نے افغانستان کو یہ سہولت بھی دے رکھی ہے مگر اس کے باوجود افغان حکام اپنے ملک میں موجود دہشتگردوں کا صفایا تک نہیں کرتے اور مسلسل پاکستان میں ہونے والی دراندازی میں اس کے پالے ہوئے دہشتگرداستعمال ہورہے ہیں ، پاکستان کئی بار افغانستان کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھاچکا ہے مگر افغان حکومت اسے سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور اس بات سے انکاری ہے کہ مسلح دہشت گرد اس کے ملک کے اندر موجود ہیں، چنانچہ وزیر دفاع نے افغان حکام کو متنبہ کرنے کیلئے بتادیا ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو افغانستان سے راہداری کی سہولت واپس لے سکتا ہے ، ایسے حالات میںافغانستان دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا اور اس کے اندر جو نقصان ہوگا اور جو مہنگائی ہوگی اس کاافغان حکام کو تصور تک نہیں ۔ اسی حوالے سے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتا، طاقت آخری چارہ ہے۔ پاکستان افغانستان کی بھارت کے ساتھ تجارتی راہداری بند کرسکتا ہے، افغانستان اپنی سرزمین پرپاکستان مخالف دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہتا ہے تو راہداری بند کرسکتے ہیں۔ اگر افغانستان ہمارے ساتھ دشمن جیسا سلوک کرتا ہے تو ہم انہیں تجارتی راہداری کیوں فراہم کریں؟پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے کہ سرحد پار دہشت گردی بہت بڑھ چکی ہے، پاکستان کابل میں ڈی فیکٹو حکمرانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہم معاملات اس طرح جاری نہیں رکھ سکتے۔فروری 2023 میں کابل کے دورے میں طالبان وزرا سے کہا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کے ماضی کے احسانات کی وجہ سے کابل کے ہاتھ نہ باندھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے