14ستمبر کو سری لنکاکولمبو میںپاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیاتھا،سری لنکا کے خلاف پاکستان کا آغاز اچھا نہیں تھا، فخر زمان اور عبداللہ شفیق کو بولرز کو کھیلنے میں مشکلات کا سامنا رہا اور پانچویں اوورمیں صرف آٹھ رنز کے اسکور پر فاسٹ بولر پرا مود مدھوشان کی گیند پر فخرزمان بولڈ ہوگئے۔اس کے بعد بابر اعظم اور عبداللہ شفیق کے درمیان پچاس رنز کی پارٹنرشپ قائم ہوئی لیکن سولہویں اوور میں بابر اعظم29 رنزپر آوٹ ہوگئے اور اس وقت مجموعی اسکور73تھا۔اس کے بعد108 کے اسکور پر محمد حارث محض تین رنز پر پویلین لوٹ گئے۔28ویں اوور میں 130 کے مجموعی اسکور پرمحمد نواز12رنز پر آوٹ ہوگئے، اس کے بعد بارش کے باعث میچ کو روک دیا گیا۔ جب میچ دوبارہ شروع ہوا تو افتخار اوررضوان نے اسکور میں اضافہ شروع کیا۔ افتخار47 اور شاداب تین رنز پر آوٹ ہوگئے رضوان86 اور شاہین آفریدی ایک رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔پاکستانی ٹیم نے42 اورز میںسات وکٹوں کے نقصان پر 252رنز بنائے۔ سری لنکا ٹیم کے ماتھیشا پاتھیرانا نے تین ،پرامودمادھوش نے دو ، مہیش تیکھشانا اور دونتھ ویلالج نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔سری لنکا ٹیم کی پہلی وکٹ بیس رنز پر گری ،جب کوسل پریزا17رنز پر رن آﺅٹ ہوگئے، اس کے بعد کوشل مینڈس اور پاتھم نسانکاکے درمیان57رنز کا پارنٹرشپ رہا اور77کے اسکور پر سری لنکا کی دوسری وکٹ گری، شاداب خان نے پاتھم نسانکا کو 29 رنز پر آوٹ کیا۔ تیسری وکٹ کےلئے کوشل مینڈس اور سدیرا سمراو کرما کے درمیان100رنز کی پارٹنر شپ رہی۔30ویں اوور میں177کے مجموعی اسکور پر سدیرا سمراوکرما 48 رنز پر پویلین واپس لوٹ گئے۔کوشل مینڈس91رنز پر آﺅٹ ہوگئے،اس وقت سری لنکا کا مجموعی اسکور210تھا۔ داسن شنا کا2، دھننجایا ڈی سلو5، دونتھ ویلالج صفر اور پرامودمادہوشن ایک رنز پر آﺅٹ ہوئے۔آخری اوور میں سری لنکا کو جیت کےلئے آٹھ رنز کی ضرورت تھی ، زمان خان نے آخری اوور میں پہلی تین گیندوں پر صرف دو رنز دیے، چوتھی گیندپر ایک کھلاڑی کو آﺅٹ کیا، آخری دو گیندوں پر سری لنکا کو چھ رنز درکار تھے،اسالنکا نے پانچویں گیند پر چوکا لگایا اور آخری گیند پر دو رنز لے لیے،سری لنکا نے جیت اپنے نام پر کرلی۔ اس میچ میںافتخار احمد نے تین ، شاہین آفریدی نے دو جبکہ شاداب خان نے ایک کھلاڑی کو پویلین کا راستہ دکھایا۔اسی میچ کے ساتھ پاکستانی کرکٹ ٹیم ایشیا ءکپ سے بھی باہر ہوگئی۔ فائنل معرکہ انڈیا اور سری لنکا کے درمیان ہوگا۔اس میچ سے قبل پاکستان نے بھارت سے بدترین شکست کھائی۔ ُاس میچ میں پاکستان نے ٹاس جیتا اور بھارت کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی کہ وہ کچھ لحاظ کریں گے لیکن انھوں نے کوئی لحاظ نہیں کیا کیونکہ پاکستان اور بھارت دو پڑوسی ممالک ضرور ہیں لیکن دونوں کے درمیان 1947ءسے اب تک حالات کشیدہ ہیں، متعدد بار جنگیں ہوچکی ہیں، جس سے دونوں ممالک کا جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک ایٹمی طاقت بھی ہیں۔جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہو تو جنگ جیسا سماں ہوتا ہے، دونوں ممالک کے شائقین کرکٹ پرجوش ہوتے ہیں، میچ کے دوران گلیاں ، مارکیٹوں اور بازاروں میں ہو کا عالم ہوتا ہے،شائقین کرکٹ اپنی اپنی ٹیموں کی جیت کےلئے دعائیں کرتے ہیں،ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، میچ سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں،جو ٹیم جیت جائے تو شائقین ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں لیکن شکست کی صورت میںٹیم کو خوب برا بھلا کہتے ہیں۔میرے خیال میںایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ جیت اور ہار دونوں صورتوں میں برداشت اور صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔دس ستمبر کو بھارت نے پچاس اوور میںدو وکٹوں کے نقصان پر356رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔ پاکستانی ٹیم میں بڑے نامور کھلاڑی ہیں، اس لئے پاکستانی ٹیم کو پلاننگ سے کھیلنا چاہیے تھا لیکن پاکستانی ٹیم 32 اوور میں محض128رنز بناکر پویلین چلی گئی اور بعض کھلاڑی پاکستانی سیاست دانوں کے نقش قدم پر چل کر بیمار بھی ہوگئے، انڈیا نے پاکستان کو 228 رنز سے شکست دی۔ اس میچ میں پاکستانی ٹیم نے قومی ٹیم کی بجائے گلی یا محلے کی ٹیم کا کردار ادا کیا، اس سے پاکستانی کرکٹ کے شائقین افسردہ ہوئے۔ پاکستان اور انڈیا ایک ہی روز میں معرض وجود میں آئے لیکن انڈیا معاشی لحاظ سے کہا ں سے کہاں پہنچا جبکہ ہم آئی ایم ایف کے احکامات کے پابند ہیں،حالانکہ دونوں ممالک کی اکثریت ایک ہی خطے سے ہیں لیکن انھوں نے شروع دن سے درست راستے کا انتخاب کیا ، ملکی مفادات کو ترجیجی دی ۔ بھارت کے ریٹائرڈ افراد اپنے ملک میں باقی ماندہ زندگی گذار رہے ہیں لیکن وطن عزیز پاکستان میں اہم پوسٹوں پر کام کرنےو الے ریٹائرڈ منٹ کے بعد بیرون ملک زیست بسر کرتے ہیں ۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان میں زرخیز زرعی زمینوں پر ہاﺅسنگ اسیکمیں بنائی جارہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانیوں کو انفرادی مفادات کی بجائے اجتماعی مفادات کو ترجیجی دینی چاہیے۔ مخصوص طبقے کو نوازنے کی بجائے میرٹ کو ترجیجی دینی چاہیے، اہم پوسٹوں پر کام کرنے والوں کوملک سے باہر نہیںجانا چاہیے بلکہ ریٹائرڈمنٹ کے بعد اپنی باقی ماندہ زندگی اپنے ملک میں گذارنی چاہیے،ان کے بچوں اور فیملی کے افراد کو بھی ملک سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کو لوٹنے والے لیٹروں کو دولت سمیت واپس لانا چاہیے۔افواج پاکستان کے افسران اور جوانوں نے وطن عزیز پاکستان کےلئے لازوال قربانیاں دی ہیں ، ان کو قطعی فراموش نہیں کرنا چاہیے، ملک کے دوست اور دشمن کی پہچان ہونی چاہیے،یہ ریاست ہماری ماں جیسی ہے، اس کا احترام اور عزت ہم سب پر فرض ہے۔جو لوگ بھی کرپشن اور لوٹ مار کررہے ہیں،وہ وطن عزیز پاکستان کے وفادار نہیں ہیں۔ پاکستان کا ہمارا پیارا اور خوبصورت ملک ہے، ہماری جان بھی پاکستان پر قربان ہو۔ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ کرپشن ،لوٹ مار کرنے والے اور میرٹ کے بغیر کام کرنے والوں کو نشان عبرت بنائیں۔ قارئین کرام! پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھارت کا خوب مقابلہ کرنا چاہیے تھا لیکن پاکستانی ٹیم ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ کرکٹ بورڈ میں میرٹ پر تبدیلی لائیں، پرچی کی بجائے میرٹ پر کھلاڑیوں کا چناﺅ کا رواج اپنا چاہیے ، ایسا کرنے سے یقینا رزلٹ بہتر برآمد ہوگا۔