کالم

ایک اور خبر

خبر ہے کہ دنیا میں پانی کے ذخائر میں کمی واقعی ہو رہی ہے لہٰذا تمام ممالک اور ان کے باشندوں کو احتیاط اور ذمے داری سے اس نعمت کا استعمال کرنا چاہیے بہترین منصوبہ بندیوں سے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اللہ کرے ایسا ہی ہو نیت اچھی ہو اور خلوص ودیانتداری سے کام کیے جائیں تو کامیابی ضرور ملتی ہے یقینا تشویشناک صورت حال ہے حالات اور وقت نے مشکلات سے پہلے ہی بگل بجا دیا پانی زندگی کا ایک اہم عنصر ہے اس کے بغیر زندگی گزر نہیں سکتی روزمرہ کے معاملات پر نظر دوڑائیں تو احساس ہوگاکہ زندگی میں پانی کی کیا اہمیت ہے انشااللہ ایسا وقت نہیں آئے گا کہ دھرتی اور اس پر بسنے والے پانی کی کمی کا شکار ہوں گے اللہ نے انسان کی تخلیق سے پہلے ہی مختلف اقسام کی تخلیق فرما دی کن فیکون نے جلوے بکھیر دیے انسان اور دیگر مخلوقات کی تمام تر ضرورتوں کے لئے ہر طرح کے بے پناہ خزانوں کا ڈھیر لگا دیا جب سے دنیا بنی تب سے انواع اقسام کے کھانوں کی سہولتیں موجود ہیں کیا کسی شے کی کمی واقع ہوئی اللہ کے خزانے میں کمی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ مالک ہے اسے معلوم ہے مخلوق کو کیا چاہیے اس کے خزانو ں میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکیاکبھی ایسا ہوا ہے کہ اس کی مخلوق بھوک اور پیاس سے ختم ہو گئی ہو وہ جو مخلوق کا پالنے والا ہے اس نے تو انسانوں کے لیے من و سلوی کا بندوبست کر دیا آسمان سے بہترین خوراک بھیجی جاتی یہ انسا ن ہی تھا جس نے کہا زمین کی پیداوار اسکی خواہش ہے اللہ نے کہا ادنی چیزیں لینا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ویسا بندوبست کر دیا خود کماو اور کھاو اب موسم کے حالات ذرائع سب کچھ ہمارے اپنے منصوبوں سے متعلق نہیں بارشیں نہ ہوں تو خشک سالی سے نہ پیداوار بہتر ہو سکتی ہے اور نہ ہی انسانی زندگی لیکن وہ رحیم ہے اس کی شان بے نیازی ہے وہ دعاووں کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے تدبیروں کو کامیابیاں عطا فرماتا ہے آسمان سے پانی برسا کر ضرورتوں کی تکمیل فرما دیتا ہے خشک سالی ختم ہو جاتی ہے تدبیریں اور منصوبے عمل نتائج سے ہمکنا ر ہو جاتے ہیں انسان کہتا ہے ہم نے یہ کیا وہ کیا تب یہ نتائج حاصل کیے مالک کے اپنےمنصوبے ہوتے ہیں وہ عطا کرتا رہتا ہے ماننے اور نہ ماننے والے اس دنیا میں موجود ہیں نہ ماننے والے دلائل سے اور علم کی بنیاد پر اپنی کامیابیوں کے پر پھیلاتے ہیں اور ماننے والے اس کے کرم اور رحمت کی بھیک کا شکر ادا کرتے ہیں عاجزی احسان کا پتہ بتاتی ہے اور مرتبہ غرور کی چوکھٹ پر سر ٹکراتا ہے پانی یا کسی اور نعمت کی کمی نہیں ہو سکتی ازل سے ابد تک سلسلہ چلتا رہنا ہے ہم اسے ماننے والے ہیں کیا کبھی ہم بھوکے پیاسے رہے ہم تو جانتے ہیں کہ اس کے خزانوں کی انتہا نہیں لیکن ہم ماننے والے منہ سے کبھی شکر کے الفاظ ادا نہیں کرتے انسان کسی دوسرے انسان کے کام آئے تو وہ شکریہ ادا کرتا ہوا تھکتا نہیں لیکن کریم اور رحیم اللہ جو خزانے عطا کرتا ہے اس کا شکر ہم ادا کرنے میں بخیل ہیں وہ شکر کرنے سے نعمتوں میں اضافہ کرنے والی ذات ہے ہماری حالت اس وقت یہ ہے کہ سوئی گیس بجلی گندم چاول کاٹن غرض کسی بھی پیداوار پر نگاہ ڈالیں تو کھیت کی مقدار ضرورت کے مطابق نہیں رونا روتے رہتے ہیں دیگر ممالک سے منگواتے ہیں امپورٹ پر فارن ایکسچینج ادا کرنا پڑتا ہے ذخائر کم ہیں کھیت زیادہ ہے ملک پر قرض بے پناہ ہے آنے والی نسلیں بھی حکومت کو ہمیشہ برے الفاظ سے ہی یاد کرتی ہیںموجودہ قوم بھی آنے والے بھی ناراض بھوکے لوگ ہیں یہ سب کیوں اور کیسے ہو رہا ہے اس لیے کہ اللہ نے جو خزانے عطا کیے ہیں اس کے استعمال کے لئے نہ تو منصوبہ بندیاں ہیں اور نہ مستقبل کے لئے کوئی پلاننگ ہے ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے جس کو موقع ملتا ہے وہ لوٹنے سے پورا پورا انصاف کرتا ہے سیاسی افرادکروڑ لگا کر سو کروڑ کماتے ہیں ان کی بلا سے ملک اور اس میں رہنے والے عذاب میں ہوں یا پھر سہولت میں انکی قسمت ہے ا ب تک تو قوم کی قسمت زوال پزیر ہے قوم ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے بھانت بھانت کے لیڈر مزے کر رہے ہیں غریب قوم کے امیر ترین نمائندے کمیشن ایجنٹ مزے میں ہیںان کے لیے کوئی مشکل نہیں سب سہولتیں ان کی دہلیز پر سرنگوں ہوتی ہیں گرمی سردی میں قوم لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات حاصل نہیں کرتی سردیوں میں سوئی گیس نہیں گرمیوں میں بجلی نہیں اب پانی بھی نہیں ہوگا کیا ملک کربلا بن جائے گا ہم لاشعوری طور پر کدھر جا رہے ہیں کے پی کے اور بلوچستان کے لوگ اپنے حقوق کے لئے چلا رہے ہیں ایسا کیوں ہے 77 سالوں میں وہاں کیا ترقی ہوئی وہ پنجاب اور سندھ کے معیار پر کیوں نہیں آسکے محرومی ان کا نصیب نہیں رہنا چاہیے ملک آئے دن کسی نہ کسی مشکل میں پھنسا رہتا ہے جو سیاسی جماعت طویل عرصے سے حکومتی پنگوڑے کے مزے لے رہی ہے انہیں سوچنا چایئے نسل در نسل حکومت کی گدی پر براجمان رہنے والوں نے صرف یہی سیکھا ہے کہ اپنے خاندان کے افراد کو اسمبلیوں اور وزارتوں پر لانے کے علاوہ ان پر کوئی فرض نہیں قرض تہہ بہ تہہ موجود ہے اس سے کیسے نجات ملے گی اب تو گھریلو اخراجات پر لاحاصل بحث ہوتی ہے اور گھریلو ماحول تلخ رہنے لگا ہے قرض لے کر ضرورت پوری کرنا جزوقتی سہولت ہے پھر قرض سے نجات کیسے ملے گی کیسے ادائیگی ہوگی آمدنی اور ذرائع میں گیپ کیسے ہو سکتا ہے یہ انسانی زندگی ہر طرح کے حالات کے سمندر سے گزر کر منزل تک پہنچ ہی جاتی ہے رونا ہنسنا دکھ غم فکر تدبر منصوبہ بندیاں مستقبل کی فکر سب کچھ چلتا رہتا ہے دکھوں کا غم اور تکلیف ہوتی ہے دماغ اور دل پر نہ مٹنے والے نقوش بن جاتے ہیں اور اس کے برعکس سکھ اور خوشیوں میں بھی وقت گزر ہی جاتا ہے وقت نے تو گزرنا ہی ہوتا ہے جیسے تیسے گزر ہی جاتا ہے یادیں رہ جاتی ہیں اللہ کے خزانے انسانوں کی دسترس اور تحویل میں ہیں سوچنے کی بات ہے غیرمسلم کے نصیب میں یہ سوچ نہیں اللہ نے کیا جو کائنات بنائی ہے نعوذباللہ اس میں کوئی کمی ہے پہاڑ دریا سمندر سورج چاند ستارے ہوائیں فضائیں سب کچھ اپنی جگہ خوبصورت اور انسان کی خدمت کے لئے موجود کائنات میں تخلیق ہی نہیں اسمیں مکمل پرفیکشن ہے انسانی تقلید کے لئے رہنمائی ہے اللہ نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا اس کے لیے زمین پر ہر سہولت فراہم کی اب یہ کیا زمین پر اس کے خزانوں میں کمی واقع ہو رہی ہے حیران کن مفروضہ ہے اس مالک کےخزانے ہیں ہی انسانوں کےلئے اس میں کسی بھی مرحلے میںکمی واقع نہیں ہو سکتی عقیدت اور حقیقت کے سچ کو ابھرنا چاہیے تاکہ شک اور بے یقینی فکر اور پریشانیوں کو جلا دیا جائے حق کے ساتھ باطل ہمیشہ سے موجود ہے یہی حق کی پہچان ہے اس کا اسکا تعارف ہے مسلمان کے ساتھ کافر کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ حق کی پہچان ہو سکے رات ہوگی تو دن کی پہچان ہوگی تضاد گواہی ہے سچ اور حق کی یہی غور طلب بات ہے بدقسمتی سے ہم اپنے کارساز خود بنتے ہیں یہی حماقت کا اظہار ہے اپنی دسترس سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے مسبب پر اعتماد ہونا چایئے ہمارا اعتماد سبب پر ہوتا ہے اس لیے منصوبے اور دعائیں اکثر کارگر نہیں ہوتیں وسوسے جو انسانی دماغ میں آتے ہیںان سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قرآن پاک کی باقاعدہ تلاوت کی جائے اور یاد الہی میں بھی وقت صرف کیا جائے یہ شوق کی باتیں ہیں کیا ہم میں شوق ہے جوا ب نفی میں ہوگا ایسا کیوں ہے چوبیس گھنٹوں میں کچھ وقت اس کام پر لگایا جا سکتا ہے صرف غفلت ہے تفکر نہیں اپنے ارادے ختم کر کے اس مالک کے ارادوں میں رہنا کامیابی ہے جو اپنے ارادوں سے دور ہوگیا وہ اس پاک ذات کے قریب ہو گیا یہ راز ہے جو حاصل کر لے وہ کامیاب ہے جو نہ کر سکا بھٹکتا رہا دنیاوی علم والے بھٹکتے رہے اپنی دلیلوں تاویلوں میں پھنسے رہے اللہ کے اپنے منصوبے ہیں انسانوں کےلئے اپنی مخلوق کےلئے ہمیشہ اسکا سسٹم چل رہا ہے کبھی کوئی خزانہ ختم نہیںہوا ہو ہی نہیں سکتا کسی بندے کے خزانے نہیں جو کم اور زیادہ ہوتے رہتے ہوں یہ خزانے اللہ کے خزانے ہیں اپنے بندو ں کے لئے یہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے اس کے کرم سےماننے اور نہ ماننے والے مستفیض ہو رہے ہیں اللہ تو دریا کو خشک کر کے راستہ بنا دیتا ہے کہ نہ ماننے والوں کو اس میں غرق کر دے اور سربراہ کی لاش قیامت تک عبرت کا نشان بنی رہے وہ جو چاہے کرتاہے فکر اور مایوسی کو پھیلانا بھی قابل گرفت ہے اسکی مخلوق ازل سے ابد تک خزانوں تک پلتی رہے گی کسی خزانے میں کمی نہیں ہوگی پریشانیاں ہم خود پیدا کرتے ہیں علم کی بڑی بڑی ڈگریاں اور عقل سے شر پھیلاتے ہیں اور خیر کی راہ بھی دکھاتے ہیں ہم افضل امت ہیں اس پیارے نبی ﷺکی جو عالمین کےلئے رحمت ہیں ہمیں خود بھی حضورﷺکے توسط سے دعا کرنی چاہیے اور حضور ﷺکی بارگاہ میں عرض کرنی چاہیے تاکہ دین دنیا کی پریشانیاں اور مشکلات ہمیشہ کےلئے ختم ہو سکیں آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے