پاکستان دنیا کا ایک خوبصورت ملک ہے ۔پاکستان کے ایسے مقامات جہاں قدرت نے کھل کر اپنے حسن، فیاضیوں اور نعمتوں کا اظہار کیا ہے،ایک مقام کلر کہار کا ہے جو پنجاب کے ضلع چکوال کی ایک تحصیل ہے ۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے والے دلکش مناظر سے بھرپور ،سر سبز اور سنگلاخ پہاڑی سلسلوں میں گھری اور زیتون کے پودوں سے لدی یہ سر زمین قدموں کو جکڑ لیتی ہے۔بل کھاتے پہاڑی ندی نالے،خوبصورت نمکین جھیل ، خوبصورتی کو چار چاند لگاتی جنگلی حیات جہاں اس خطے کا حسن دوبالا کرتے ہیں وہیں پہاڑوں کے بیچ چھلانگیں لگاتے اڑیال اور مستانہ چال چلتے، مخمور آنکھوں سے اٹھکھیلیاں کرتے اور پر پھیلاے مستی سے جھومتے مور اور قدیم تاریخی مقامات کلر کہار کی خصوصی پہچان ہیں۔کلر کہار کے جادوئی حسن کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ قدرت نے اس خطے کی خوبصورت قدرتی نظاروں اور قدرتی باغات سے ایسی تزئین کی ہے کہ اس کے حسن میں کوئی کمی نہ رہے۔کلرکہار جہاں اپنے قدرتی حسن کیلئے شہرت رکھتا ہے وہیں تخت بابری ،سحر طاری کرنے والی نمکین جھیل اور دربار بابا سخی آہو باہو بھی اس کی خصوصی پہچان ہیں ۔پہاڑی سلسلے میں گھری اس سر زمین کا جہاں ایک طرف لاہور اسلام آباد موٹر وے سینہ چیر کر گزرتی ہے تو دوسری طرف نیشنل ہائی وے کی سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک اس کے دامن سے گزر کر چکوال اور خوشاب کو آپس میں ملاتی ہے اور اس طرح یہ پہاڑی سلسلہ چکوال،چوا سیدن شاہ ،للہ ٹاؤن ،کٹھہ ،تلہ گنگ اور سکیسر تک چلتا ہے۔1982میں اپنے ایک دوست کے ہاں چکوال کے گاں بھون جانا ہوا تو ہم دوست کلر کہار گئے۔پھر پچھلے سال سردیوں میں دوبارہ کلر کہار جانے کا اتفاق ہوا ۔اس جنت نما خطے کی خوبصورتی ، قدرتی دلکش مناظر اور اس کی تاریخی اہمیت اور پس منظر نے مجبور کیا کہ اس پر کچھ لکھوں اور آپ کی خدمت میں پیش کروں۔کلر کہار میں پنجاب ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ہوٹل کے ٹیرس میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میری نگاہیں اس حسین وادی کو چاروں طرف سے محاصرے میں لئے اور سبز چادر اوڑھے پہاڑوں کی اونچی نیچی ان چوٹیوں کو دیکھ رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ موجودہ دور کے خونی رشتوں اور ان پہاڑی چوٹیوں میں کتنی مماثلت ہے کہ اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی آپس میں مل نہیں پاتیں۔بابا آہو باہو کے مزار کی زیارت ، تاریخی ریسٹ ہاؤس جہاں رومانوی شاعر مصطفی زیدی قیام فرماتے تھے ،تخت بابری اور کلر کہار کی پہچان نمکین جھیل کا نظارہ میرے پروگرام میں شامل تھا۔ چائے کے آخری گھونٹ کو حلق سے اتارنے کے بعد اس ریسٹ ہاؤس کی طرف نکل گیا جہاں نصف صدی پہلے مشہور رومانوی شاعر مصطفی زیدی بے وفائیوں کے جھرمٹ میں اپنی تنہائی کو گواہ بنائے وفا کی تلاش میں آتے تھے۔اور اپنی محبت کی تلخ یادوں اور فراق کے دکھ کو جہاں ایک طرف سگریٹ کے دھواں کے مرغولوں میں اڑاتے تو دوسری طرف ان جذبوں کو الفاظ کا روپ دے کر کاغذوں کے کینوس پر رنگ بھرتے تھے جس کو دنیا شاعری کا نام دیتی ہے۔ بہرحال تخیل میں سلام عقیدت کے بعد ریسٹ ہاؤس کے دروغے سے اس کمرے کے بارے میں پوچھا جو مصطفی زیدی کا مسکن رہا تھا۔دروغہ سوال کے جواب میں ایک لمبی کھانسی کھانسا۔پتھر پر بیٹھا اور پھرہاتھ میں پکڑی لاٹھی کے اشارے سے بتایا کہ وہ کمرہ ہے جہاں صاحب بہادر مصطفی زیدی کراچی سے آ کر رہا کرتے تھے۔دروغا جو نسل در نسل اس ریسٹ ہاس کا انتظام سنبھالے ہوئے تھاخود ہی گویا ہوا۔صاحب یہ بڑے لوگوں کے دکھ بھی عجیب اور خوشیاں اور شوق بھی عجیب ۔کوئی عشق سے ناکامی پر خود کشی کر لیتا ہے تو کی محبوبہ کی یاد میں تخت ہزارہ چھوڑ کر رانجھا بن جاتا ہے ۔ایک شہنشاہ تخت و تاج کا رعب قائم رکھنے کیلئے بیٹے کی محبت کو زندہ دیوار میں چنوا دیتا ہے تو بیٹا اس محبت کی یاد میں تاج محل بنوا دیتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ادھر لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ادھر کراچی کا ایک سیٹھ کروڑوں کی موت خرید کر بیٹے سمیت سمندر کی گہرائی میں جا بسا ۔ صاحب جی۔چارگز لٹھے ہی کی تو بات ہے ۔پتہ نہیں سب کو نصیب ہوتا بھی ہے یا نہیں۔پھر یہ سارے جھمبیلے،یہ خواہشوں کے ریلے۔یہ سب کیوں ؟دروغہ جو پچاس برس کا ہو گا ہاتھ میںپکڑی لاٹھی کو بار بار اور ایک خاص ترنگ اور تواتر سے زمین پر مار کر اپنے واعظ نما موقف کو موثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔میں نے اپنے چہرے کے تاثرات اور ہاتھ کے اشارے سے اس کی معلومات،تاریخ سے لگا اور درویشانہ خیالات اور موثرخطابانہ اندازہ گفتگو کی تعریف کی اور پوچھا ،کتنے پڑھے ہوئے ہو ۔”کہنے لگا ۔مدرسے میں تو دہم تک پڑھا ہوں لیکن دنیا کو پڑھنے اور پرکھنے میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔دل تو کر رہا تھا کہ اس دلچسپ شخص سے مزید مکالمہ کیا جائے لیکن وقت کی کمی کے باعث اس مقام کی طرف چل پڑا جہاں زیدی صاحب مرحوم قیام فرماتے تھے ۔وہاں جا کر میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور کوشش کی ان سرگوشیوں کو سن سکوں جو مصطفی زیدی نے اپنی محبت کی یاد میں اپنے آپ سے سوال جواب کی صورت میں کی ہوں گی لیکن کچھ سنائی نہ دیا۔(…جاری ہے)