کالم

ایک ملت کیوںنہ بن سکے؟

ہر زمانے میں جوسوال جنم لیتے ہیںان کے جوابات عطا کرنے کےلئے قدرت کی جانب سے صاحب ارشاد مقرر ہوتے ہیںاور وہاں الجھنوں سے نجات دلاتے ہیں ، ہمارا دور پریشانیوں اور پیچیدگی کا ایسا دور ہے کہ لوگ اپنے ذاتی سماجی اور دینی مسائل کے بے پناہ بوجھ تلے دبے ہوئے ہیںاور ان کا حل تلاش کرنے میںناکامی کے بعد متعدد پریشانیوں اور ذہنی دباو¿ کا شکار ہوجاتے ہیں ، ایسے میں قدرت کی جانب سے مخصوص افراد کو مسند ِارشاد پر فائز کردیا جاتا ہے جو سوال کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ سوال تراشنے والے نہ صرف مسئلہ حل کردیتے ہیںبلکہ عمل کی راہیں کھول دیتے ہیں ، صراط مستقیم کی منزلوں کے مسافر بن جاتے ہیں ۔ صرف علم حاصل کرنے والوں کے لئے کتب خانے بھرے پڑے ہیں ، کتابیں پڑھتے ہوئے زندگی گزر جاتی ہے ، وقت ہو تو یہ شغل چلتا رہتا ہے ، انسان کتابوں میں الجھا رہتا ہے ، لائبریری میں وقت گزارتا ہے اور زندگی اس سے باہر گزر رہی ہوتی ہے ، وقت پھسلتا رہتا ہے اور احساس اس وقت اجاگر ہوتا ہے جب زندگی کی بساط الٹنے کے قریب ہوتی ہے ، یہی وقت زندگی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ملا ہے وہ وقت ہی تو ہے باقی جو کچھ ہے وہ اس وقت کو استعمال کرنے کے شعبے ہیں ، اللہ پاک نے اسی وقت میں ایسے خوبصورت مناظر بنادیئے اور انسان کو ان مناظر کا نظارہ کرنے والا بنادیا ، سورج چاند ستارے پہاڑ ،دریا ، وادیاں یعنی بے شمار مناظر جو دیکھنے والے کو فطرت کے قریب لے جاتے ہیں ۔یہ سوچ کے غماز ہیں، وقت اگر مقصد کے قریب رہے تو ضائع نہیںہوتا ، اس مختصر زندگی کا کوئی مقصد حیات ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ جب زندگی آخری مراخل میںہو تو پتہ چلے کہ مقصد ہی درست نہیں تھا ، وقت ہی تو زندگی ہے اگر یہ زندگی مقصد کے قریب رہے تو ضائع نہیں ہوتی ورنہ جیسے جیسے تیسے گزر ہی جاتی ہے اور پھر احساس شدت سے تازیانے برساتا رہتا ہے کہ کوئی وقت کو ضائع کردیا گیا ، اس شعبے میں مخلص ہونا بڑا ضروری ہے ورنہ وقت تو گزر ہی جاتا ہے ، یہ وجود جو صفات کے ساتھ موجود ہے عاقبت کا غماز ہے اس وجود کو عاقبت کے گھر پہنچانا ہے ، پریشانیوںسے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس وقت کو ضائع نہ کیا جائے تاکہ آخرت میں ندامت نہ اٹھانی پڑے ، ہم زندگی کو لاشعوری طورپر ختم کرتے رہتے ہیں لیکن یہ اپنے وقت سے پہلے ختم نہیںہوتی ، اللہ اپنی رحمت سے بچاتا رہتا ہے ، ہم تو اپنے آپ کو تباہ کرنے کی طرف مائل رہتے ہی ہیں لیکن اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں ہمارے اعمال کے سپرد نہیںہونے دیتا اس کا کرم شامل حال رہتا ہے ، اس پاک ذات نے ہمیں دین عطا فرمایا اور اس پر چلنے کی تاکید فرمائی ، ماں باپ دیئے اور فرمایاکہ ان کے احکامات کو نظر انداز نہ کرنا ،زندگی عطا کی کہ اسے ضائع نہ کرنا ، یہاں کئے گئے اعمال کی جوابدہی آخرمیںہوگی ، اللہ تعالیٰ نے کتنا کرم فرمایا کہ ہمیں مسلمان بناکر مسلمان گھرانوں میںپیدا کیا اور پھر حضور ﷺ کی امت بنایا کیا ہم نے دنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ہمیں مسلمان ماں باپ اور سرکار ﷺ کی امت بناکر دنیامیں بھیجنا ، یہ تو اللہ کا خاص کرم ہوا اس بات کو سوچیں اور جتنا شکر ادا کرسکتے ہیں ضرور ادا کریں ، انسان کا مسلمان ہونا بڑی سعادت ہے ، اس کا اپنے خالق کے سامنے جھکنا ایسا عمل ہے کہ مالک کے لازوال ہونے کا ثبوت ہے ، جہاںپیشانی جھکتی ہے وہاں معبود کے ہونے کا ثبوت ہے ، عابد کا ہونا معبود کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بھی مخلوق ہے وہ خالق کے ہونے کی واضح دلیل ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی زندگی کو دنیا داری میں اتنا مصروف کرلیا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی طرف دھیان دینے کا وقت نہیں ملتا کہ خالق سے بحیثیت مخلوق ہمارا رشتہ کیا ہے ، اس رشتے کو نبھانے کے انداز کیا ہیں ، ازل سے ابد تک جس خالق کی حکمرانی ہے اس کے احکامات پر نہ چلنے کی وجوہات کیا ہیں ، ہم حقیقت سے دور کیوں ہیں ، وہ اللہ جو کائنات کا مالک ہے ، اس کی بارگاہ میںہماری پیشانی کیوںنہیں جھکتی ، ہمیں اپنی بے شمار غلطیوں کا احساس کیوں نہیں ہوتا وہ مہربان مالک ہماری غلطیوں سے وقتی چشم پوشی کرتے ہوئے نعمتوں کا نزول کررہا ہے لیکن ہم اپنی خودساختہ زندگی میںہمہ تن مشغول ہیں ، ہم نے جو اپنی زندگی بنا رکھی ہے اس کا انجام کیا ہوگا اتنی تو ہمیںعقل ہے کہ اچھا اور برا کیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی بے مقصد دوڑ میںشریک ہیں ، کبھی یہ یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ مالک سے بندگی کا رشتہ مصلحتوں کا شکار تو نہیں ہورہا میری ذات دوسروں کےلئے عافیت ہے یا فرعونیت کی تقلید ہے ، میری زندگی دوسروں کےلئے عافیت ہے تو سودمندی کی علامت کیوں نہیں بنتی ۔ کیا یہ قلیل وقت کی زندگی دین کے احکامات میں گزر رہی ہے ، دین کا ماننا میرا نصب العین کیوں نہیں ، زندگی منافقت کی طرف کیوں ہے ، میرے اعمال میں صداقت کیوں نہیں ، مال ، دولت کے پیچھے بھاگتے رہنا کیا زندگی کا صرف یہی مقصد ہے ، میں اپنا خود ہی دشمن ہوں، وقتی آسانیاں آسائشیں تلاش کرنے اور اس کے حصول میں زندگی بسر ہورہی ہے ، یہ سب کچھ تو وہ لوگ بھی کررہے ہیں جو دائرہ اسلام سے قطعی طور پر باہر ہیں ، مجھ میں اور ان کے اعمال اور حسن سلوک کو دیکھتے ہوئے غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوں ، زندگی کیوں بے ثمر بن گئی ہے ، خیال ذہن سے جھانکتا ہے کہ مسلمان ہونے کے حوالے سے ایک ملت کیوںنہ بن سکے ، ہم اسلام سے کہہ رہے ہیں کہ تونافذ ہوکے دکھا ، میرا ملک اسلامی ملک ہے لیکن چوریاں ، ڈاکے ، زنا ، جوا ،شراب ، دھوکے ،فریب قتل اور غارت گری تمام کچھ ہے ، یہاں امن ، سکون کیوں نہیں، عزت ، آبرو جان ، مال کا تحفظ کیوںختم ہوگا ، گھر سے باہر جائیں اورپھر خیریت سے واپس آجائیںتو بندہ شکر کرتا ہے کہ کسی حادثے سے دوچار نہیں ہوا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رہا ، معاشرہ انتشار کا شکار ہے ، چار پیسوںکے حصول کےلئے کسی کی زندگی چھین لینا عام سی بات ہے ، بے حسی کا دور دورہ ہے دین کو دنیا کی نذر کررہے ہیں، بے حسی عروج پر ہے اپنے مفادات کے حصول میںکسی کی جان لینا عیب نہیں، مادر پدر آزاد ماحول کے خواہاںہیں کیا یہ انسانیت ہے ، اپنے گریبان میں جھانکھیں اور نتیجہ نکالیں کہ کیاہم انسان کہلوانے کے مستحق ہیں۔ اس وقت جو بے راہ روی ہے تو اپنے محبوب ﷺ کے صدقے سے ہماری ابتر حالت کو بہترین حالت میں تبدیل فرمادے ، ہم تیرے غضب کے متحمل نہیںہوسکتے۔ آج اپنے ساتھ اور اس ملک کیساتھ جس کو اتنی قربانیوںکے حاصل کیا ایمانداری سے وفادار ہونے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے