کالم

اے زندگی تیرا اعتبار کیسا؟

زندگی بڑی بے رحم ہے۔ذرا سا بھی ترس نہیں کھاتی ہے۔کب تن سے جدا ہو کر موت کی وادی میں پہنچا دے کوئی پتہ نہیں چلتا ہے۔کتنے ہی لوگ ہم نے دیکھے ہیں کہ رونق دنیا تھے مقام قبر بن گئے۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ یہ دنیا عبرت کی جاءہے جی لگانے کی جگہ نہیں اور یہی حقیقت ہے۔آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ جسے ہم حقیقت زندگی کہتے ہیں وہ اصل میں سراب ہے اور ٹھیک بات یہی ہے کہ اس چند روزہ زندگی نے ہمیں دھوکے میں ہی ڈال رکھا ہے۔زندگی اور اس کی حقیقت کیا ہے اس کو سمجھنے سے قاصر ہوں، بس یہی کہوں گا کہ زندگی رب کی عطا ہے وہ جب چاہے ہم سے واپس لے لے۔ممتاز صحافی، معروف کالم نگار،مصنف حیات عبداللہ زندگی کی حقیقتوں کو اپنے کالم ”وہ حادثے جو ہم سہہ گئے”میں لکھتے ہیں کہ کیا کمال لکھتے ہیں کہ میں جو اپنی ماں کی وفات کے بعد ان کی جدائی کے کرب سے بمشکل آٹھ ماہ بعد تھوڑا سا باہر نکلا ہی تھا کہ پھر سے جہاں تھا، وہیں ہی اپنے آپ کو پھر سے محسوس کرتا ہوں۔حیات عبداللہ نے زندگی پر رونما ہونے والے حادثوں پر اپنا قلم چلا کر بہت ہی نیک اور عظیم کام کیا ہے۔بہت سے راہ گم افراد کو راستے پر لائے ہیں اور بہت سے بھٹکے ہوئے کو درست راستہ دکھایا ہے۔یقینا یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے جان جوکھوں کا کام ہے۔حیات عبداللہ کی تحریر پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنی دیر اس راہ پر چلے یا پائے گئے ہوں گے کیا کیا ہوا دل کے ساتھ معاملے دیکھے ہوں گے،تبھی تو اس مقام پر پہنچے ہیں کہ وہ راز پا گئے ہیں جنہیں سمجھنا بہت ہی کم افراد کا نصیب ٹھہرتا ہے۔یہ وہ راز ہے کہ جسے ہم سمجھتے سمجھتے زندگی تمام کر لیتے ہیں اور قبریں دیکھ لیتے ہیں مگر جان نہیں پاتے ہیں۔حیات عبداللہ کی یہ دل کو ہلا دینے والی تحریر ہم جیسے گنہگاروں کے لیے ایک بہترین راستہ اور مشعل راہ ہے کہ درد کو درد سے آشنا کر دیااور وہ وہ بتا گئے کہ تو حقیقی معنوں میں ہماری ضرورت ہے۔حیات عبداللہ لکھتے ہیں کہ ”درونِ دل فکرِ آخرت کی کوئی کرن ٹمٹماتی ہو تو حیاتی کی بے ثباتی کا جو رنگ ہے یہ زندگی میں بے تابیاں گھول کر تمام خوشیوں کو غارت کر ڈالتا ہے۔ پھر انسان کو بادِ صبا کے جھونکے بھی دھوکے دِکھائی دیتے ہیں۔زیست کی یہ بے بضاعتی انسان کی ساری نزاکتوں اور نظافتوں کو چاٹ کھاتی ہے۔جب بھی خیالات کے کسی جھروکے میں زندگی کی اس ”بے اعتباری“ کا کوئی جھونکا آ جائے تو تمام خوشیاں اور تمام آسودگیاں کالعدم سی ہو جاتی ہیں، آرزوئیں بے نور اور چاہتیں بے مایہ سی دِکھنے لگتی ہیں۔ہم اپنی زندگی میں کتنی بار مشاہدہ کر چکے ہیں کہ خواہشوں اور آرزو¶ں کے شہر اپنے سینوں میں بسا کر جیتے جاگتے اور چمکتے دمکتے لوگوں کو فرشتہ ءاجل آنِ واحد میں قصّہ ءماضی بنا ڈالتا ہے۔ہم لوگ امیدوں اور تمنا¶ں کو پال پوس کر، انھیں مکھن پیڑ ے کِھلا کِھلا کر خوب پہلوان بنا کر ان کی تکمیل کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کا تعاقب کرتے چلے جاتے ہیں ۔ امیدوں کے سہارے زندگی کی راہوں اور ریگ زاروں پر چلنے والے ہم لوگ اتنے بے خبر ہیں کہ ہمیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ کون سا طلوع ہونے والا سورج ہماری زندگی کا آخری ہو گا۔ہمیں تو اتنا علم بھی نہیں کہ افق کے پار غروب ہو جانے والا آفتاب اب کبھی ہماری زندگی میں طلوع ہو بھی سکے گا کہ نہیں۔یہ کیسی بے خبری ہے؟ کہ ہمیں یہ تک نہیں معلوم کہ ہمارا کون سا جملہ آخری ہو گا؟ ہماری کس مسکراہٹ اور تبسّم کے بعد ہمارے لب کبھی مسکرا نہ پائیں گے؟ اور ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ ہماری پلکوں سے گرنے والا کون سا آنسو آخری ہو گا؟ اپنی ذات اور شخصیت کے متعلق اس قدر اَہم باتوں سے نابلد ہونے کے باوجود یہ انسان اپنے مزاج اور طبیعت کے لٹّھے میں کلف لگائے پھرتا ہے۔مولوی عبدالرّضا رضا نے کیا ہی خوب کہا ہے!
کیا بھروسا ہے زندگانی کا
آدمی بُلبلا ہے پانی کا
کسی بھی حادثے کا شکار ہونے والے مسافروں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ یہ ان کا آخری سفر ہے اور چند لمحوں بعد ان کے جسم سے زندگی کی رمق تک چھین لی جائے گی۔موت سے فرار تو کسی ذی روح کے بس کی بات نہیں۔ہم مرنے سے خائف رہتے ہیں۔ہم فنا ہونے کے متعلق سوچ کر ہی سہم جاتے ہیں۔راجیش ریڈی کا شعر ہے:۔
یہاں ہر شخص ہر پل حادثہ ہونے سے ڈرتا ہے
کھلونا ہے جو مٹی کا فنا ہونے سے ڈرتا ہے
موت کے متعلق ہم عجیب دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ہمیں یقینِ واثق بھی ہے کہ آخر مرنا ہے اور ساتھ ہی اس وہم میں بھی مبتلا ہیں کہ موت ابھی نہیں آئے گی۔حالاں کہ کتنوں کو بھری جوانی میں موت اچک لیتی ہے۔مَیں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہم موت سے نہیں بچ سکتے مگر اس سے بچنے کے لیے دن رات ایک کیے رکھتے ہیں، اس کے برعکس ہم جہنم سے بچ سکتے ہیں لیکن اس سے بچنے کی کوئی سعی نہیں کرتے۔یہ حقیقت ہے کہ ہم موت کو یاد بھی کرتے ہیں تو عارضی بنیادوں پر، بس ذہن کے کسی خفیہ گوشے میں یہ خیال دبکا رہتا ہے کہ ہم نے مرنا ہے۔کسی بزم میں کسی وعظ و نصیحت کی مجلس میں محض سرسری طور پر یا کچھ ثانیوں کے لیے موت کا تذکرہ کر کے پھر پرانی روش اور ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔ اگر ہمارا کوئی پیارا یک دم جدا ہو جائے، جب کوئی ہمارے دل کا ٹکڑا ہماری آنکھوں کے سامنے اچانک ہی دنیا چھوڑ چلے تو کچھ دنوں کے لیے موت کا دھڑکا اور کھٹکا بھی لگا رہتا ہے مگر رفتہ رفتہ ہم انھی پھوکٹ راہوں کی جانب لوٹ آتے ہیں۔وہ لوگ بڑے ہی سعید بخت ہیں کہ جن پر اس دنیا کی بے ثباتی آشکار ہو گئی اور انھوں نے معصیت کی زندگی سے انحراف کر لیا۔جس کا دل بھی اس دنیا کی عارضی حیات کی حقیقت جان گیا اس کے دل سے حرص و ہوس اور عناد و کینہ سب کچھ ہی تو بھسم ہو جاتا ہے۔عیش دہلوی نے کیا سچ کہا ہے!
بے ثباتی چمن دہر کی ہے جن پہ کھلی
ہوس رنگ نہ وہ خواہشِ بُو کرتے ہیں
زندگی میں کتنی بار ہم اپنے پیاروں کی جدائی کے جاں سوز لمحات سہ چکے ہیں۔کتنی ہی مرتبہ درد اور کرب حدود و قیود کے پیرہن چاک کر کے آنکھوں کے راستے بَہ نکلتے ہیں تو کبھی لفظوں کی صورت نوکِ زبان سے ابل پڑتے ہیں اور کبھی قلم و قرطاس سے منسلک لوگوں کے قلم تک آب دیدہ ہو جاتے ہیں۔ مجھ سا کوئی شخص بھی قلم تھامے، چائے سے اٹھتی بھاپ کو تکتا جدا ہوجانے والے اپنے پیاروں کے متعلق سوچتا آنسو¶ں میں گم ہو جاتا ہے۔دل کے تمام مضافات، مقاماتِ آہ و فغاں بن جاتے ہیں اور کوئی خفیف سی سِسکی خیالوں کے بندھن سے باہر لے آتی ہے۔میر تقی میر نے کبھی کہا تھا:۔
کہا میں نے گُل کا ہے کتنا ثبات؟
کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا
بعض اموات بھی بڑی ہی بھیانک اور عبرت ناک ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر جسم و جاں تک کانپ اٹھتے ہیں۔کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی لعنت ملامت ان کا مقدر ٹھہر جاتی ہے۔موت تو سب کو آنی ہے تو کیوں نہ باعزت موت کی دعا کی جائے۔مَیں اس کالم کے ذریعے آپ کی ذات اور احساسات کو پند و نصائح کے کوہِ گراں تلے نہیں دبا دینا چاہتا اور نہ ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہوں کہ آپ دنیا سے بالکل ہی رُوکشی اختیار کر لیں۔مَیں تو فقط کوئی بھی ایک گناہ کو چھوڑنے کی بات کرنے چلا ہوں۔ میرے یہ شکستہ سے لفظ اور بے ترتیب سا لہجہ صرف اس بات کا خوِاست گار ہے کہ اس عارضی حیات کا کسی بھی وقت خاتمہ ہوا چاہتا ہے،۔ سو ہم اپنے دلوں کو صاف کر لیں، اپنے بھائی، رشتے داروں، دوستوں کے بارے میں اور اپنے مذہب و ملک کے متعلق جس قدر روکھا پن ہماری طبیعت میں دَر آیا ہے، جتنی بے رخی ہمارے مزاج سے چمٹ کر رہ گئی ہے اور جس قدر منافرت ہمارے دلوں میں بس گئی ہے، اسے اللہ کی رضا کے لیے ختم کر دیں۔زندگی کی بے ثباتی کتنے لوگوں کو کھا گئی؟ ہم کتنے لوگوں کو گم کر چکے اور ہم ان گم گشتہ لوگوں کو کھوجتے اور تلاشتے کہاں تک نہ نکل آئے؟ مگر ہمارا یہ سارا سفر رائگاں ہی تو ثابت ہوا ہے، ہم آج تک کتنی یادوں سے لپٹ کر روئے مگر کچھ بھی تو حاصل نہ ہوا۔ کیف بھوپالی نے کہا تھا:۔
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں، مجبوریاں، تنہائیاں
جانے والے بھلا کب لوٹ آتے ہیں؟ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ہم بھی ایک نہ ایک دن انھی راہوں اور راستوں میں کہیں گم ہو جائیں گے جہاں ہم نے اپنے پیاروں کو دفنایا تھا۔ہم بھی قبر کی منوں مٹی تلے دفن ہو جائیں گے۔موت کا فرشتہ کب ہمیں اچک لے اس کی خبر نہیں، سو اپنے دل کو اپنے بھائیوں کے متعلق بالکل ہی صاف کر لیجیے، اتنا صاف اور ستھرا کہ اُس کو آپ کے دل میں محبتوں کے سوا کچھ بھی تو دِکھائی نہ دے۔بہت پیارا شعر کہا ہے مہیش چندر نقش نے!
تصویرِ زندگی میں نیا رنگ بھر گئے
وہ حادثے جو دل پہ ہمارے گزر گئے
خوبصورت فکرواسلوب کے مالک صحافی حیات عبداللہ کی اس تحریر پر آخر میں یہی کہوں گا کہ زندگی کے اس دھوکے میں پہلے ہی حال و بے حال سے تھے،اٹھ نہیں پا رہے تھے کہ ان کے اس اظہار خیال نے پھر سے مار ڈالا ہے۔ وہ جو درد تھوڑا تھوڑا سا کم ہوا تھا، پھر سے ہرا ہو گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri