غیر منظم اور منقسم جاپان کا سمورائی قبیلہ بارہویں صدی میں اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ اس نے عشروں سے بگڑے نظام کو منظم اور جدید خطوط پر استوار کر دیا مگر جاپانیوں کی بدقسمتی کہ جاپانی ترقی اور خوشحالی کی چند دہائیاں ہی دیکھ پائے کیونکہ منگول حملہ آوروں نے سب کچھ برباد کر دیا. پھر اگلے کئی سو سال وہ سنبھل نہ سکے. پھر دنیا نے 20 ویں صدی کے جاپان کو سائنسی ترقی کے عروج پر پایا. کہ امریکہ جیسا ملک بھی خوفزدہ اور ایٹم بم گرا کر اس کی پیش قدمی کو روکنے پر مجبور ہوا. اس اندوہناک تباہی کے بعد بھی جاپانیوں ہمت نہ ہاری اور نئے عزم اور ولولے سے تعمیر نو کی طرف ایسے بڑھے کہ چند عشروں میں ترقی یافتہ اقوام کے امام بن گئے. اس کے مقابل اگر ہم آپنے احوال کو دیکھیں تو سر شرم سے جھکتے ہیں کہ 15سال پہلے زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات اب بھی باقی کہ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک سے بھی اتنی امداد ملی تھی کہ کئی نئے شہر آباد ہو سکتے تھے مگر کرپشن امداد کا زیادہ حصہ چٹ کر گئی۔ہمارے ہاں ہر روز اخلاقیات کے جنازے اٹھتے ہیں اور ہر دن ایک نیا سانحہ جنم لیتا ہے۔ظلم کے نت نئے طریق سامنے آتے ہیںمگر ہم ہیں کہ بدلنا تھا نہ بدلے، سانحات اور واقعات سے سبق سیکھنا تھا نہ سیکھے. اب تو نوبت یہاں تک ان پہنچی کہ آسمانی آفات اور قدرت کی تنبہات سے بھی ہم سچائی، دیانت اور توبہ کی طرف مائل نہیں ہوتے. تباہ حال جاپان نے ترقی کا آغاز دولت، امداد یا بھیک سے نہیں کیا اور نہ جدید مشینری کا حصول ان کے پیش نظر تھا. بلکہ انہوں نے ترقی کے اس سفر کا آغاز اعلی اخلاقی روایات کی بنیاد سے کیا کہ حادثات اور سانحات کبھی بھی سرمایہ اور ٹیکنالوجی کو برباد کر سکتے ہیں مگر اقدار باقی رہنے والی چیز.جاپان کا نظام تعلیم پوری دنیا سے مختلف کہ وہاں پہلے پانچ، چھ سال طلبہ کو صرف اخلاقیات اور اقدار پڑھائی جاتی ہیں کہ اس عرصہ میں وہ نونہالوں کے دل و دماغ پر نظم و ضبط، دیانت و امانت اور اعلیٰ کردار، صفائی ستھرائی، اخلاق، حب الوطنی، دوسروں کےلئے ہمدردی اور محبت جیسے جذبات نقش کرتے ہیں. صفائی پر مامور عملہ کو بہت قدر کی نگاہ سے اور انہیں ہیلتھ انجنئیر کہا جاتا ہے. دفاتر اور گھروں میں صفائی ستھرائی کےلئے نوکر کا تصور نہیں.نظم و ضبط اور جذبہ مواخات ایسا کہ سونامی جیسی تباہی کے بعد ہر شہری نے زائد از ضرورت سامان دیگر شہریوں کےلئے وقف کر دیا.وقت کی قدر بھی کوئی چاپانیوں سے سیکھے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے اوقات میں محض چند سینکڈز کا فرق، شور شرابہ اور بے ہنگم زندگی سے وہ اس طرح دور جس طرح ہم اسلامی ملک میں رہ کر اسلام سے.عوامی مقامات اور دفاتر میں سیل فون بجنے یا لمبی گفتگو کا تصور تک نہیں اور نطم و ضبط اتنا مثالی کہ دنیا بھر کے لیے قابل تقلید. مگر حیف کہ ھم نے ان کی اعلی اقدار اور ترقی کے حقیقی راز سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہ کی. نظام بدلا نہ نصاب. نوجوانوں کی اس نہج پر تعلیم و تربیت کا سامان ہی نہ کیا کہ وہ معاشرے کے کارآمد فرد بن سکتے، قوم بن سکتے اور قومی روایات کے آمین. بلکہ طبقاتی نظام تعلیم نے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ریاست کےلئے بوجھ بنا دئیے ہیں ۔ کسی حکومت نے مسائل کو جڑ سے ختم اور وسائل کو بہترین انداز سے استعمال کرنے کی سعی نہ کی بلکہ جز وقتی اقدامات سے اپنے اقتدار اور سیاست کو دوام اور راہنماﺅں نے سیاسی میدان میں زندہ اور شہرت کےلئے عارضی سہارے لیے ہر دور کے حکمرانوں نے سرکاری وسائل سے بننے والے ترقیاتی منصوبہ جات اور فلاح و بہبود کو سرکاری وسائل کے ساتھ تشہیر کا کوئی موقع ضائع نہ ہونے دیا. افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکل کی اقتدار اور سیاست سے باوقار اور باعزت رخصتی سے بھی کچھ نہ سیکھا۔تین بار مسلسل اقتدار کے باوجود ان کے رویہ میں رعونت آئی اور نہ ذاتی زندگی میں سادگی و کفایت کا دامن چھوٹا، طاقت اور اقتدار کو منی لانڈرنگ کےلئے استعمال کیا اور نہ اپنی کاروباری ایمپائر بنائی کہ جو کئی ممالک تک ہو. حیرت یہ کہ پورے دور اقتدار میں کوئی مالیاتی سکینڈل تک نہ بنا۔اپنے اور اپنے خاندان کےلئے سرکاری وسائل کے دروازے کھولے اور نہ قیمتی پلاٹس کی الاٹمنٹ کرائی. پروٹوکول اور کروفر کےلئے قیمتی گاڑیاں خریدی گئیں اور نہ طویل اقتدار کے دوران کبھی آئین و قانون سے انحراف کی جرات کی. مخالفین کو جیل بھجوانے اور نشان عبرت بنانے کی بڑھکیں ماریں اور نہ میڈیا کو ذاتی تشہیر کےلئے استعمال کیا. معاشرہ انصاف پر قائم اور آئین و قانون کی بالا دستی ہو تو ایسے حکمران اچنبھا نہیں.جرمنی نے اس وقت شام کے مہاجرین پر اپنے دروازے کھولے جب اپنوں نے بند کر دیے تھے. لاکھوں تباہ حال مسلم مہاجرین کو پناہ دی.اتنی شاندار کامیابیوں، اور طاقت ور ہونے کے باوجود ان کے سر پر کبھی پورے یورپ کا راہنما بننے کا خبط سوار ہوا اور نہ اپنے شاندار دور اقتدار کو مستقل طور پر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کےلئے استعمال کا خیال.سال 2021میں جرمن قوم نے اپنی عظیم راہنما کو منٹوں تالیاں بجا کر باوقار انداز سے رخصت کیا. معیشت کو چار ہزار ارب ڈالرز سے زائد تک پہنچانے والی اس عظیم خاتون کے اپنے گھر کے معاشی حالات دگرگوں ہی رہے کہ اقتدار کا سارا عرصہ عام فلیٹ اور محدود آمدنی میں نوکروں کی فوج کے بغیر ہی گذارا . قدرت کا ہے کہ اصول علم، فن اور ترقی کو کسی کی میراث نہیں رکھااور "کوئی قابل ہو تو ھم شان کئی دیتے ہیں” کے مصداق کوئی فرد ہو یا قوم اگر دیانت، امانت، عدل اور انصاف کو اپنا لے تو ترقی اور عظمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں. کیا کبھی پاکستانی عوام جاپانیوں کی طرح اعلی اقدار کی حامل قوم بن پائے گی اور سیاست دان مرکل جیسے دیانت دار حکمران ! مگر یہ طے ہے کہ احوال بدلے بغیر نہ عوام بدلے گی نہ حکمران۔