کالم

با مقصد سفر کی یادیں

چند دن پہلے میری ملاقات محمدی مسجد شہزاد ٹاؤن کے امام خطیب عالم دین مولانا عبد القدوس صاحب سے ہوئی میں نے کہا آپ نے ایک ہفتہ ہم کو اپنی زیارت سے محروم رکھا خیریت تھی ،کہاں رہے۔ آپ مسکراتے ہوئے کہنے لگے، میاںصاحب میں ترکی گیاہوا تھا۔ میرے ساتھ چھوٹے بھائی مولانا عبدالروف بھی تھے، ہمیں ترکی میں رہنے والے کردوں نے بلایا تھا ،ترکی میں وہ ایک لاکھ نوے ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر آباد ہیں۔ انکی اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے یعنی ننانوے فیصد لوگ مسلمان ہیں اور اسلام سے وابستگی بہت زیادہ ہے۔ کرد قوم صرف ترکی میں نہیں بلکہ شام عراق اور ایران میں بھی آباد ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے صوبہ کردستان کے رہائشی اسلام کی خدمت میں کسی سے کم نہیں۔ وہاں کی ایک تنظیم نے ہمیں بلوایا تاکہ مسجد اقصی ٰجو کہ مسلمانوں کی دوسری اہم ترین مسجد ہے اس کے بارے میں اسرائیل کے ناپاک عزائم پر بات کی جائے اور اسلامی ممالک کے علما حضرات سے اس اہم موضوع پر خیالات شیئر کئے جائیں اور پھر مسجد اقصیٰ کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔ مولانا کہنے لگے ان کی سب سے نمایاں سوچ اور عمل یہ ہے کہ وہ کسی مسلک کو زیر بحث نہیں لاتے باہمی عزت، احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بہترین حسن سلوک اور مہمان نوازی کے ساتھ کانفرنسز کرتے ہیں۔ اسلام اور موجودہ دور میں اس پاک مذہب کے نہ ماننے والوں اور غلط پروپیگنڈا کرنے والوں کو شائستگی متانت علم، حلم کے ساتھ مدلل جواب دیتے ہیں اور یہی انداز گفتگو وہ آنے والے مہمانوں سے چاہتے ہیں۔ ایک ہفتہ قیام میں بہت لطف آیا جہاں انہیں مہمانوں کی سہولیات کا خیال تھا، وہاں کا نفرنسز سے مختلف سیشن میں مختلف موضوعات پر ان کی گفتگو علمی تحقیق پر مبنی ہوتی جو کہ پرتاثیر ہونے کے ساتھ دوسروں کے علم اور تحقیق میں بھی معاون تھی۔ وہاں تقاریر کے دوران یہ واضح طور پر محسوس ہوا کہ کوئی بات تنازع نہیں تھی ۔ کسی فرقہ یا مسلک کو برا نہیں کہا گیا ،محبت پیار احترام کی برکھا برستی ہوئی محسوس ہوئی ۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد نبوی کے بعد تیسرے مقام پر نمایاں ہے، یہ مسلمانوں کی میراث ہے جو کہ تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر ہوئی یہود کے موقف کے مطابق اس جگہ پر پہلے سلمانی ہیکل تھا ۔ قرآن کریم میں سفر معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر ہے گویا یہ مسجد سرکار دو عالم کی بعثت سے بھی پہلے موجود تھی ۔ یہ مسجد فی الواقع زمین پر دوسری تعمیر ہونے والی مسجد ہے۔ قرآن کریم میں سورة الاسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر یوں فرمایا ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی ‘جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ ہی خوب سننے اوردیکھنے والا ہے۔یہ متبرک مسجد مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔یہ سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔ معراج شریف میں نماز کی فرضیت کے بعد سولہ سترہ ماہ مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہو گیا۔پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے مسجد اقصیٰ میں رد و بدل کی لیکن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کر دیا اور محراب و منبر کے ساتھ مسجد کو بھی اصل حالت میں لانے کے لیے شب و روز محنت کی ۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا 21 اگست 1969 میں ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوا ،محر اب میں موجود منبر بھی متاثر ہوا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا اور قبلہ اول کی آزادی کیلئے اس نے سولہ جنگیں لڑیں ۔ اس المناک واقع کے بعد امت مسلمہ نے آنکھیں کھولیں اوراس سانحہ کے ایک ہفتہ بعداسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی )او آئی سی) قائم کی۔تاہم لاہور میںاسکا دوسرا اجلاس ہوا اس کے بعد 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم فعال نہیں حالانکہ اسکی اہمیت یہ ہے کہ حضرت محمدۖ سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے اور مسجد اقصی ٰمیں تمام انبیا کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔احادیث کے مطابق دنیا میں ان تین مساجد کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے۔ مسجد حرام مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی ۔کوفہ کی مسجد بھی فضیلت والی مسجدوں میں شامل ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کردستان کبھی تاریخ میں ایک علیحدہ ملک کے طور پر نہیں رہا۔ اسکا کل رقبہ 392000 مربع کلومیٹر بنتا ہے ترکی میں 190,000ایران میں 125000 عراق میں 165000اور شام میں 12000 مربع کلومیٹر ہے۔ تقریبا چالیس ملین کر دباشندے ان ممالک میں مقیم ہیں۔ کوہ جودی کوہ ارارات اہم ترین پہاڑاور دریائے دجلہ، فرات اہم ترین دریا ہیں۔ جھیل وان ترکی میں جھیل ارمیہ ایران میں ہے جو کہ عالمی سطح پر مصروف ہیں ۔ انکی زبان کردی ہے ۔ لوگ بہت ملنسار مہمانوں کی بے انتہا عزت کرنے والے مددگار اخلاقیات کا شاہکار ہیں ۔ جھگڑے فساد کو پسند نہیں کرتے ؟ کسی دوسرے کی ذاتی پسند یا نہ پسند پر کسی قسم کا اظہار خیال غیر اخلاقی فعل سمجھتے ہیں ملکی قوانین پر عمل زندگی کا اولین فرض محسوس کرتے ہیں ۔پرامن معاشرے میں باہمی عزت، احترام سے پر سکون زندگی گزار نے والے ہیں۔ہمارا سفر بہت یادگار رہا کا نفرنس کے اختتام پر انہوں نے ہمیں مختلف مقامات پر سیر کروائی اسکے بعد ہم قطر ٹھہرے کیونکہ ہمارے دوستوں نے ہمیں انکے ہاں رکنے کا وعدہ کیا ہوا تھا ۔ یہ ملک بھی خوبصورتی صفائی ستھرائی میں نمایاں ہے لوگ ملکی قوانین کا احترام کرنے والے ذمے دار شہری ہیں کسی کو اونچی آواز سے بولتے ہوئے یا سڑکوں پر گندگی پھیلاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ ہم اس عمل پر حیران ہوئے کہ وہاں دکانوں کے شٹر نہیں ،کھلی رہتی ہیں ۔ چوری چکاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا قانون شکنی پر سخت سزائیں ہیں جو تحقیقات کے بعد فوری نافذ کر دی جاتی ہیں۔ تحقیقات میں بھی بہت وقت نہیںلگتا سالوں کیسز پڑے نہیں رہتے قانون کا خوف ہے جسکی وجہ سے معاشرہ پرسکون ہے ۔ ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہیکوئی بھی ایک دوسرے کا گر بیان پکڑے گالیاں دیتا ہوا نظر نہ آیا۔بہر حال ہمارا ملک بھی مثالی ریاست بنے گا دیر ضرور ہے اندھیر نہیں۔ایک جیسے حالات کبھی بھی نہیں رہتے اگر چہ اس وقت معاشی پریشانیاں ہیں ۔لیکن ملک ان حالات پر قابو پالے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پاک وطن کو بھی صحیح معنوں میں فلاحی ریاست بنائے گا ایسے لوگ سامنے آ سامنے آئیں گے جو ملک و قوم کے لئے بہی خواہ اور مخلص ہونگے ۔حال ہی میں کے پی کے وزیر اطلاعات بیرسٹر سیف کی سربراہی میں ملک کے نامور علما نے چین کا دورہ کیا جن میں مولا ناقدو س بھی شامل تھے۔ چین میں پہلی سرکاری مسجد کے افتتاح پر پاکستان سے علما کو مدعو کیا گیا۔ اسوقت چین میں35ہزار مساجد ہیں اور 55 ہزار امام مسجد۔اس سال دس ہزار چینی مسلمانوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب کا سفر کیا ۔ مہمان نوازی کے ساتھ چین کی مشہور جگہوں کا دورہ بھی کرایا گیا ۔یہ بات خاص طور پر نوٹ کرنے والی ہے کہ پاکستان سے علما کے وفد کا چین کے وزیر خارجہ نے استقبال کیا ۔ آپ کی اطلاع کیلئے صرف بیجنگ شہر میں 72مساجد ہیں جنہیں نمازی حضرات نے آباد رکھا ہوا ہے۔ چینی حکومت یقینا قابل تعریف ہے کہ انہوں نے سر کاری مسجدکے افتتاح پر پاکستان سے علما حضرات کو بلایا۔ چین اور پاکستان کی دوستی بہت گہری اور لازوال ہے ہمارے مشکل وقت میں ہمیشہ انہوں نے ساتھ دیا ۔ ہماری معاشی ترقی میں چائنا کا کردار نمایاں ہے وقت کے ساتھ ساتھ دوستی میں مزید اعتماد پیدا ہو رہا ہے، میں قربت کو دیگر ممالک اگر چہ پسند نہیں کرتے اور اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں لیکن وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ امریکہ میں اس بات کو بھی واضح کر دیا ہے کہ چین پاکستان کی دوستی اور تعلقات کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں پاکستان امن پسند ملک ہے اور اسکی خارجہ پالیسی بھی اس بات کی عکاس ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے