کالم

بجلی مہنگی ،دھرنا،بنگلہ دیش تبدیلی

دنیا کی سیاست میں بڑی تیز رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ حماس کے اہم رہنما ہنیہ جو نو منتخب ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے ایران آ ئے تھے کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ ایران نے کہا ہے کہ ہانیہ کی ہلاکت میں اسرائیل ملوث ہے اور ایرانی قیادت نے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے قبل ایرانی صدر ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں ہلاک ہو گئے تھے ان واقعات سے ایرانی پاسداران کی کمزور سیکورٹی کا پول کھل گیا ہے۔ بنگلہ دیشی کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے دو ماہ کی مدافعت کے بعد عوامی احتجاج کے سامنے سر جھکا دیا اور فوجی ہیلی کاپٹر میں ملک سے فرار ہو کر بھارت کے شہر اگر تلہ پہنچ گئیں ۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں حصہ لینے والوں کی اولادوں کےلئے سول بیورو کریسی کی ملازمتوں میں 56فیصد کوٹہ مقرر کیا تھا جس کیخلاف یونیورسٹیوں کے طلبا اور سول سوسائٹی سڑکوں پر نکل آ ئی انہوں نے دو ماہ بڑے منظم انداز میں حسینہ حکومت کے خلاف تحریک چلائی اور آخر کار بنگلہ دیش کی آ ئرن لیڈی حسینہ واجد کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا انہیں فوج نے استعفے کےلئے 45منٹ کا وقت دیا تھا وہ قوم سے الوداعی خطاب بھی ریکارڈ نہ کروا سکیں اور فوج نے انہیں سیف ایگزٹ دے دیا۔ دراصل حسینہ واجد کا جھکا شروع ہی سے بھارت کی طرف تھا جب شیخ مجیب اور ان کے پورے خاندان کو ان کی رہائش گاہ دھان منڈی میں قتل کیا گیا تو حسینہ واجد اس وقت بھارت میں تھیں اس لیے بچ گئیں ۔ طلبا اور عوام اس قدر بپھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کے قد آور مجسموں کو جوتوں کے ہار پہنا کر توڑ پھوڑ دیا۔ یہ وہی ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا تھے جنہوں نے 71کی بنگلہ دیش تحریک میں شیخ مجیب کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا دنیا کی نظر میں تو حسینہ واجد ایک جمہوری حکمران تھیں لیکن درحقیقت وہ بہت بڑی ڈکٹیٹر تھیں ان کے 15سالہ دور حکومت میں عوام کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں معطل کی گئیں۔ سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیا سمیت حزب اختلاف کے رہنماﺅں کو جیلوں میں ڈالا ۔ انہوں نے جماعت اسلامی کی ٹاپ قیادت کو پھانسیاں دیں۔ ان کا دور ہٹلر اور مسعولینی کے طرز حکمرانی کی یاد دلاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں اب زندگی نارمل ہورہی ہے بنگلہ دیش کے آرمی چیف حسینہ واجد کے رشتے دار ہیں وہ غیر جانب دار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہو گئی ہے ۔ انہوں نے آتے ہی بھارت کو سخت پیغام دیا ہے ۔ جب ہم تاریخی طور پر جائزہ لیں تو مسلم لیگ 1906میں سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں قائم ہوئی ۔ دونوں ممالک کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود دہائیوں تک اکٹھے رہے ۔ شیخ مجیب محب وطن تھے 70کے انتخابات میں واضح جیت کے باوجود انہیں اقتدار نہیں دیاگیا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مظاہروں میں طلبا ہم رضاکار رضاکار کے نعرے لگا رہے تھے دراصل بنگلہ دیش کی تحریک کے دوران 71میں جن لوگوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی انہیں رضاکار کہا جاتا تھا ۔ ان ہنگاموں کے دوران پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔جب ہم بنگلہ دیش کی معیشت کا پاکستان سے موازنہ کرتے ہیں تو ان کی معیشت ہم سے مضبوط نظر آ تی ہے بنگلہ دیش کے ٹکے کا ایک وزن ہے۔ ان کے فارن ریزرو ہم سے دگنے ہیں ان کی انڈسٹری نے بہت ترقی کی ہے خاص طور پر گارمنٹ کی صنعت دنیا کا مقابلہ کر رہی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر انحصار کم کر دیا ہے اور ہمارا آ ئی ایم ایف کے بغیر گزارا نہیں جس کی سخت ترین شرائط پر عمل کرتے کرتے پوری قوم ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے آ ئی پی پیز کے غیر حقیقت پسندانہ معاہدوں کی وجہ سے بجلی کے بھاری بلوں نے عوام کا برا حال کر رکھا ہے اور آ بادی کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے جارہی ہے بجلی کے بھاری بلوں کیخلاف جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمن سڑکوں پر ہیں کئی ہفتوں سے راولپنڈی میں جماعت اسلامی کا دھرنا جاری ہے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے کئی بے مقصد دور ہو چکے ہیں جماعت کی قیادت نے ریلیوں کے ساتھ پشاور اور لاہور کے دھرنوں کا اعلان کیا ہے ۔ جماعت اسلامی کے امیر نے دھرنے کے دو ہفتے مکمل ہونے پر خطاب میں کہا ہم عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دلانا چاہتے ہیں جبکہ حکومت مذاکرات کو طول دینا چاہتی ہے ہم پھر بھی بات چیت کا راستہ بند نہیں کر رہے حکومت پر آ ئی پی پیز کے معاہدے منسوخ کرنے کےلئے عوام کا دباﺅ بڑھ رہا ہے ۔ جماعت کی قیادت بجلی کی قیمتوں میں کمی چاہتی ہے اور یہ پوری قوم کا مطالبہ ہے ۔اتحادی حکومت کو عوامی مطالبہ ماننا پڑے گا ورنہ وقت کے ساتھ عوامی دباﺅ بڑھتا جائے گا۔ مبینہ طور پر وفاقی وزیر اویس لغاری نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں کسی صورت کمی نہیں ہو گی ۔ کیا حکومت عوامی دبا ﺅکا مقابلہ کر پائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے