پوری قوم نے پرجوش وخروش، نعروں اور دلی دعاﺅں کے درمیان پاکستان کی آزادی کے 77 سال کا جشن منایااس موقع پر وزیر اعظم شہبازشریف نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ حکومت چند دنوں میں قوم کو بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کی خوشخبری دے گی۔لوگ مہینوں سے مہنگے بل وصول کر رہے ہیں کیونکہ حکومت گردشی قرضوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کو لاگو کرنے کے لئے بجلی کی قیمتوں میںاضافہ کرتی رہتی ہے۔آج لوگ مہنگائی، بجلی کے بلوں، بے روزگاری اور دیگر مسائل سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے دن رات کام کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت بجلی کے بل سب کی سب سے بڑی پریشانی ہے اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے بغیر پاکستان کی صنعت،زراعت اور برآمدات ترقی نہیں کر سکتیں۔مزید برآں انہوں نے کہاکہ وہ چند روز میں قوم سے خطاب کریں گے جس میں ملک کا پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ پیش کریں گے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔پاکستان میں بجلی کے صارفین بے چینی سے ریلیف کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی قیمتوں نے کافی مالی دباﺅ پیدا کر دیا ہے۔ اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونےوالے اجلاس میں 200یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ریلیف دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔ اس میٹنگ کو خاص اہمیت حاصل تھی کیونکہ اس میں فروری 2024 کے انتخابات کے دوران پاکستان مسلم لیگ نوازکے ایک اہم انتخابی وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس میں 300تک مفت بجلی کی فراہمی شامل تھی۔ یونٹس مسلم لیگ نون کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عوامی سطح پر اس وعدے کی یاد دہانی مسلسل جاری ہے۔اقتدار سنبھالنے کے بعد سے، مسلم لیگ نون کی حکومت نے اپنے یوٹیلیٹی بل ریلیف کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ درحقیقت گزشتہ پانچ مہینوں میں بجلی اور گیس کے بلوں میں اس قدر زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سی برآمدی صنعتیں بند ہونے کے دہانے پر ہیں اور بعض افراد نے ان بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے خودکشی کا سہارا لیا ہے۔گزشتہ تین سالوں میں بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ پچھلی حکومتیں ہیں۔ ستمبر 2023میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران ملک کی معاشی پریشانیوں کا ذمہ دار ماضی کی انتظامیہ کو ٹھہرایا۔ انہوں نے زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیکسٹائل میں اصلاحات کے منصوبوں کا اعلان کیا اور بجلی کے صارفین کے لئے مستقبل میں ریلیف پیکجز کا وعدہ کیا حالانکہ وعدے پورے نہ ہونے کی صورت میں تنقید سے بچنے کے لئے انہوں نے مخصوص تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ بجلی کی زیادہ قیمت انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں کی وجہ سے ہے جو کہ نان یوٹیلیٹی جنریٹرز ہیں جو کہ نیشنل گرڈ کو فروخت کے لئے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ آئی پی پی اکثر پاور پرچیز ایگریمنٹس کے ذریعے تیسرے فریق کو بجلی فروخت کرتے ہیں۔ان پروڈیوسرز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں نے صارفین پر مالی بوجھ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔گھریلو صارفین اور صنعتی شعبوں دونوں کے لئے بجلی کی زیادہ قیمتیں ایک بڑی تشویش ہے۔حکومت اکثر آئی پی پیز کو ادائیگیوں کو بجلی کی بلند قیمتوں کی وجہ بتاتی ہے۔ تاہم یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنے سے بجلی کی پیداوار میں 10,000میگاواٹ تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اور مجموعی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔بجلی کی قیمتیں ستر روپے فی یونٹ سے زیادہ صارفین اور کاروبار دونوں کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ اس طرح کے زیادہ اخراجات گھرانوں کو بنیادی بجلی فراہم کرنے سے روکتے ہیں اور صنعتی کاموں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں عوامی اور کاروباری برادریوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً حکام نے بجلی چوری اور بل نادہندگان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے، جبکہ حکومتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 34سرکاری ادارے اوران کے اہلکار مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جس سے صارفین اور کاروبار پر اربوں روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ یہ واضح ہے کہ چوری یا مفت کھپت کی وجہ سے کھوئے گئے یونٹس کی قیمت غیر منصفانہ طور پر ادائیگی کرنے والے صارفین پر ڈالی جاتی ہے۔ حکومت ایک منصفانہ نظام قائم کرے جو عام صارفین کے لئے ریلیف کو یقینی بنائے۔مزید برآں بجلی کے صارفین دیگر شعبوں میں ٹیکس چوری کا بوجھ بھی برداشت کر رہے ہیں۔ حکومت کو ٹیکس کے متبادل نظام کو بہتر بنانے اور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ صارفین کو ریلیف مل سکے۔ ریلیف کے بار بار کیے گئے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے، اور صارفین اب ٹھوس اقدامات کے منتظر ہیں۔ معاشی بحالی کا بجلی کے صارفین کو ریلیف فراہم کرنے سے گہرا تعلق ہے اور اگر شہباز شریف اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی انتظامیہ پر عوام کا اعتماد نمایاں طور پر بڑھ سکتا ہے۔
جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی
آئی ایس پی آر نے کہاہے کہ سیکیورٹی فورسز نے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں چھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ منگل کی رات جنوبی وزیرستان کے ضلع میں سیکورٹی فورسز اور خوارج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ نتیجتاً چھ خوارج جہنم میں بھیجے گئے۔ تاہم فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران مٹی کے چار بہادر بیٹوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کو قبول کیا۔پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔خیبر پختونخواکے قبائلی اضلاع کو افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی طرف سے دہشت گردی کی دوبارہ لہر کا سامنا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ایک نوجوان افسر لیفٹیننٹ عزیر محمودملک ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں تین مقامات میں سے ایک میں اپنے فوجیوں کی قیادت کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کے عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گئے۔چار عسکریت پسند شدید زخمی ہو گئے۔ اتوار کو وہ پشاور کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں انتقال کر گئے۔شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ دو دیگر مقابلوں میں ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اورایک افسر سمیت چار افراد زخمی ہوئے۔ چند روز قبل جنوبی وزیرستان کے دو سیشن جج اور ٹانک کے ایک قائم مقام ڈسٹرکٹ جج بال بال بچ گئے تھے لیکن لکی مروت میں ان کے قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار شہید ہو گئے تھے۔ پولیس چوکیوں پر بھی بار بار حملے ہوتے رہے ہیں۔اسلام آباددیگر علاقائی ممالک، خاص طور پر چین کے ساتھ جس کے ساتھ کابل حکومت کے اقتصادی اور سفارتی تعلقات بڑھ رہے ہیں ۔کم از کم افغان حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرنے کے لئے کام کر سکتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو ان کے خاندانوں سمیت پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں سے دور منتقل کریں اورانہیں اپنے ملک میں آباد کریں ۔ عسکریت پسندی کو جنم دینے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے دیگر پالیسی آپشنز پر عمل کیا جانا چاہیے۔ ٹی ٹی پی کی کسی بھی حمایت کی حوصلہ شکنی کے لئے حکومت نے چند روز قبل ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں اسے فتنہ الخوارج کا اعلان کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان دہشت گردوں کے نام کے ساتھ ان کی اصل شناخت کو ظاہر کرنے کے لئے خارجی کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ یہ ایک جوابی بیانیہ کے طور پر مفید ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ شورش زدہ قبائلی اضلاع میں صحت کی دیکھ بھال کی اچھی خدمات اور تعلیم کے ساتھ ساتھ بہتر امن و امان کی فراہمی کے لیے خاطر خواہ وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کے پاس کوئی نتیجہ خیز چیز ہو اور وہ تشدد کی طرف راغب نہ ہوں۔
اداریہ
کالم
بجلی کی قیمتوں میں کمی کی نوید
- by web desk
- اگست 16, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 359 Views
- 12 مہینے ago