بجٹ کا ذکرسنتے ہی غریب عوام کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پاکستانی عوام کے لئے بجٹ ہے ہی خوفناک چیز۔۔لیکن ایک لحاظ سے بجٹ فائدے مند بھی ہے کہ اس سے حکومتی کارکردگی کا سب کچا چٹھہ بے نقاب ہو جاتاہے بہرحال معیشت کے خدو خال واضح ہوتے جارہے ہیں کیونکہ موجود حکومت کے ارباب ِ اختیار صرف بڑھکیں مارتے ہوئے اینی کارکردگی پر اتراتے پھرتے ہیںلگتاہے اس بجٹ میں عوام کیلئے کوئی خوش خبری نہیں ہے، محسوس ہوتاہے یہ والا بجٹ تو ایسا ہے کہ اس کو مکمل طور پرIMF نے ڈکٹیٹ کیا ہے اورIMF کی شرائط کے تابع ہے وہ ساری شرائط بجٹ میںآ رہی ہیں جس سے عوام کو شدید تحفظات ہیں دوسر عام آدمی کے احساسات ہیں کہ ملک کی ایلیٹ کلاس ، بیوروکریٹس، ارکان ِ اسمبلی نے طے کرلیا ہے کہ ہم نے کوئی قربانی نہیں دینی کیونکہ ان کو فری فسیلیٹی حاصل ہیں اس سال حکومت نے بقلم خود اقتصادی جائزے میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان پر مجموعی قرض 76 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا یعنی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ملک پر مقامی قرض 51 ہزار 518 ارب روپے جبکہ بیرونی قرضہ 24 ہزار 489 ارب روپے ہوگیا جبکہ ملک میں ہسپتالوں کی تعداد ایک ہزار 696 ہے۔ملک میں بنیادی مراکز صحت کی تعداد 5 ہزار 434 ہے۔جبکہ ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد 3 لاکھ 19 ہزار 572 ہے۔اور ملک میں 750 افراد کیلئے صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے( جوہائوس جاب کے ساتھ ساتھ جن میں نصف سے بھی زیادہ پرائیویٹ ہسپتالوں،کلینک یا دیگرطبی اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہ صبح کے وقت عام مریضوںکو دستیاب نہیں ہوتے)۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سال میں ڈاکٹرز کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد اضافہ ہوا۔ڈینٹسٹس کی تعداد 39 ہزار 88 تک پہنچ گئی ہے جبکہ ملک میں نرسز ایک لاکھ 38 ہزار ہو گئیں ہیں جبکہ دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801اور لیڈی ہیلتھ ورکز کی تعداد 29 ہزار ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہزار شیر خوار بچوں میں سے سالانہ 50 فوت ہو جاتے ہیں، ملک میں اوسطاً عمر کا اندازہ 65سال سے بڑھ گیا ہے اور اوسط عمر 67 سال تک پہنچ گئی ہے۔۔عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں غربت کی سطح میں اضافے کے تخمینے کے مطابق 44.7 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا یہ اعتراف کہ غربت کی سطح میں اضافہ ہوا ہے حکمرانوںکیلئے انتہائی لمحہ ٔ فکریہ ہے یہ الگ بات کہ حکمرانوںکو اس کی کوئش فکرنہیں۔ بہرحال موصوف کا یہ بھی کہناہے کہ ہم ایسا نظام دیں گے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ ایسے وقت میں جب عالمی بینک نے نچلے درمیانے آمدنی والے ممالک کیلئے روزانہ فی فرد آمدنی کی حد کو 3.65 ڈالر سے بڑھا کر 4.20 ڈالر کر دیا ہے، پاکستان میں غربت کی سطح بڑھ کر 44.7 فیصد تک جا پہنچی ہے، یعنی اتنی آبادی غربت کے ظالمانہ شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔تاہم حکومت کی جانب سے پیر کو جاری کردہ اقتصادی سروے 2024ـ25 میں غربت اور بیرروزگاری کی کوئی تازہ ترین سرکاری شرح شامل نہیں کی گئی۔ حکومت کا یہ انکشاف بھی ہوشرباہے کہ رواں مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت میں حیران کن طور پر اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم 58 کھرب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ،یہ اضافہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 20 کھرب روپے کا ہے حالانکہ حکومت نے کئی ٹیکس چھوٹ واپس لے لی تھیں۔ ڈالر میں یہ نقصان 21 ارب ڈالر بنتا ہے جو اس 17 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے جو پاکستان نے اس سال چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کو تجارتی اور دوطرفہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے درکار تھا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی سروے 2025 میں بتایا گیا ہے کہ متعدد مرتبہ ٹیکس مراعات واپس لینے کے باوجود ٹیکس چھوٹ کا حجم ہر سال بڑھتا جا رہا ہے ان میں سے بیشتر مراعات 3مختلف ٹیکس قوانین کے تحت دی گئی تھیں اور انہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت 39 کھرب روپے تھی جو رواں سال 58.4 کھرب روپے تک پہنچ گئی ،ن لیگ کی حکومت کی جانب سے گزشتہ بجٹ میں متعدد مراعات ختم کئے جانے کے باوجود یہ اضافہ51 فیصد یا 19.6 کھرب روپے رہا۔ وفاقی حکومت کے نئے بجٹ میں 2 ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کیے جانے کا امکان ہے جبکہ یوٹیوبرز اور فری لانسرز کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کی جانے کی تجویز ہے جبکہ نان فائلرز پر سختیاں مزید بڑھائی جائیں گی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے حکومت کے اقتصادی اعداد وشمار پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں غربت 44.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور تین برسوں میں گندم کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے 2022 میں جو شخص 50 ہزار روپے کما رہا تھا آج اس کی قدر تقریباً 22 ہزار روپے رہ گئی ہے، تین برسوں میں گندم کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ اعداد و شمار میں وزارت شماریات کے اعدادوشمار کے دو برسوں کے ڈیٹا کا موازنہ کرکے دے رہا ہوں۔ملک میں غربت 44.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، پلاننگ کا بجٹ 80 فیصد بغیر استعمال ہوئے واپس چلا گیا، یہ بھی دیکھنا چاہیے۔پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی 80 روپے ہے جو بڑھا کر 100 روپے تک لے کر جائیں گے ، حالانکہ 2022 میں پٹرول لیوی 20 روپے فی لیٹر تھی۔ ایسے ہی کچھ خیالات اقتصادی ماہرین کے ہیں ویسے موجود حکومت کے ارباب ِ اختیار صرف بڑھکیں مارتے ہوئے اینی کارکردگی پر اتراتے پھرتے ہیں عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے ان کے پاس کوئی پروگرام ہے نہ حکمت ِ عملی ۔اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ملک کی ایلیٹ کلاس ، بیوروکریٹس، ارکان ِ اسمبلی نے طے کرلیا ہے کہ ہم نے کوئی قربانی نہیں دینی کیونکہ ان کو فری فسیلیٹی حاصل ہیں۔ اس کا بین ثبوت ہے کہ اس طبقہ نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اتنا اضافہ کرلیاہے کہ عام آدمی اب تک پریشان ہے کہ ہمارے ساتھ ہوکیا رہاہے؟ بجٹ کا مطلب ہے کہ سال بھر مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا اگر ایسا نہ ہوا تو پھر حکومت بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی کیوں کرتی ہے۔