کالم

بحرانوں کا بھنور

rohail akbar

آج عید ہے اور جو رمضان المبارک میں لوٹ مار نہیں کرسکے انہوں نے اب تیاریاں کرلی ہے خاص کر ٹرانسپورٹ مافیا نے لٹی پٹی عوام کو مزید لوٹنا شروع کردیا ہے اس پر پنجاب حکومت نے کیا حکمت عملی اپنائی ہے اس پربعد میں کچھ لکھوں گا پہلے اس بحران کا ذکر کرلیتے ہیں جو حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے اگر یوں کہوں کہ ہم بحرانوں کے بھنور میں پھنستے جارہے تو درست ہوگا کیونکہ حکومت الیکشن سے راہ فرار اختیار کررہی ہے اور عدالت آئین پر عملدرآمد کروانا چاہتی ہے پاکستان بیک وقت سیاسی، آئینی اور معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے جس نے ہر باضمیر پاکستانی کو پریشان کررکھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تمام بحرانوں کا حل یہی ہے کہ ملک میں صاف اور شفاف الیکشن ہوں، شفاف انتخابات کےلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کےلئے ایک تاریخ پر متفق ہو جائیں ظاہر ہے ایک تاریخ پر اتفاق رائے قائم کرنے کےلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ ہونا بھی ضروری ہیں ہر سیاسی لیڈر جب اقتدار میں آتا ہے تو اسکی خواہش ہوتی ہے کہ ملک اور عوام اسکے اشاروں پر چلے ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ 23کروڑ عوام اس ملک کے وارث ہیں اور ان کا فیصلہ ہی حتمی ہو گا اسی لیے تو انتخابات میں سبھی جماعتیں حصہ لیتی ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کی بقا ہی عوام سے اعتماد حاصل کرنے میں ہے اور الیکشن کے حوالہ سے موجودہ بحران تب ہی حل ہو سکے گا جب آئین پر عمل کیا جائے ورنہ تو اداروں کی مداخلت سے مسائل حل ہوں گے نہ ہی باہر سے کوئی پاکستان کی مدد کو آئے گا ہماری موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ کر عالمی طاقتیں اور دوست ممالک اپنی ترجیحات طے کرنے میں مصروف ہیں اوریہ بات کافی حد تک واضح ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اب ہماری مدد کو نہیں آئے گا لہذا سیاسی جماعتوں کو انا اور ضد سے پیچھے ہٹنا اور باوقار طریقہ کار اختیار کر کے ٹیبل پر بیٹھنا ہو گا اگر سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں تو مسئلہ کا کوئی نہ کوئی بہتر حل نکل آئے گا اور انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا گذشتہ دنوں امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب نے فرمایا تھا کہ آئندہ الیکشن میں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر غیر جانبدارہو جائیں، مرکز اور صوبوںمیں نگران حکومتوں کا قیام ہو اور ایک دن الیکشن ہوں تاکہ ملک خدانخواستہ خانہ جنگی اور فساد کی کسی بھی ممکنہ صورت سے نجات حاصل کرے یہ ایک اچھی تجویز ہے مگر ایسا ہو نہیں سکتا وہ اسٹبلشمنٹ جنہوں نے نہ صرف ہماری سیاست پر قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ اقتدار کی تقسیم بھی وہی کرتی ہے تو وہ کیسے پیچھے ہٹ سکتی ہے ہاں ملکی سیاست میں انہیں بھی کوئی نہ کوئی حصہ دیدیا جائے تو کہ وہ پردے کے پیچھے نہیں بلکہ سامنے آکر سیاست سیاست کھیلیں ہر سیاسی جماعت کی طرح اسٹبلشمنٹ بھی اپنا منشور دے اور پھر منصفانہ الیکشن کروائے جائیں تاکہ عوام ایسے پاکستان کی تشکیل کےلئے ووٹ دیں سکیں جہاں کرپشن، بدامنی نہ ہو، ہر شخص کو عدل و انصاف ملے، ہر بچے کو تعلیم اور روزگار ملے، استحصال کا خاتمہ ہو، ملک کے وسائل عوام پر خرچ ہوں ایسا پاکستان بن سکے جو ہم خوابوں میں سوچتے ہیں کیونکہ ملک میں وسائل کی کمی نہیں اللہ تعالی نے پاکستان کو بہترین زرعی زمین، معدنیات کی دولت، لائیو سٹاک، پانچ دریاﺅں اور ذہین اور محنتی افرادی قوت سے نوازا ہے جبکہ ہمارا اصل مسئلہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، کرپشن، ناکام معیشت اور نااہل قیادت ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیںکہ یہ تمام کے تماممسائل ہماری حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں قوم کے 35سال ڈکٹیٹروں جب کہ بقیہ عرصہ سیاسی جماعتوں کے نام نہاد جمہوری ادوار کی نظر ہو گیا اور اس وقت بھی عملا ملک پر آئی ایم ایف کی حکومت ہے عالمی مالیاتی ادارے ہدایات جاری کرتے ہیں اور اسلام آباد میں بیٹھے لوگ اسے بلا چوں چراں نافذ کردیتے ہیں کیونکہ ان آقاﺅں کی خوشنودی سے حاصل ہونے والا قرضہ حکمران طبقہ خود ہضم کرجاتا ہے اور پھر قربانی غریبوں سے مانگی جاتی ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ جنہوں نے قرضہ لیا اور کھایا وہ خود ادا کریں غریب ہر بار قربانی کیوں دے حکمران دولت کے انبار پر بیٹھے ہیں چند بڑے چار ہزار ارب کے اثاثوں کے مالک ہیں اور غریب روٹی کےلئے ترس رہا ہے اور ہمیں سیاستدانوں نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے اپنے اپنے مفادات کی خاطر یہ سیاسی لوگ کبھی ایک دوسرے کو ننگا کرتے ہیں تو کبھی مفادات کی خاطر بغلگیر ہو جاتے ہیں حالانکہ سیاست رواداری اور برداشت کا نام ہے لیکن اس وقت کوئی سیاستدان یا اہم ادارہ ذرا سی لچک دکھانے پر آمادہ نہیں ہے سیاست کو زندگی اور موت کی جنگ بنا دیا گیا ہے جس سے ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور جی ڈی پی نصف فیصد پر آگئی ہے خود پسند سیاستدانوں کو ملکی معیشت کے زوال سے کوئی غرض نہیں کیونکہ بے روزگاری اور مہنگائی کا سارا بوجھ عوام اٹھا رہی ہے جن کا جینا محال ہو چکا ہے ملکی معیشت مسلسل کمزور ہو رہی ہے اوراگرہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو اسکی تباہی کے بعد سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے کیونکہ یہ نقصان انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہو گا اس لیے موجودہ کھیل میں شامل افراد اور اداروں کومعلوم ہونا چائیے جبکہ عدلیہ کو سیاسی تنازعات میں ملوث کرنے سے عدلیہ کی طاقت اورعزت بھی خطرے میں پڑ چکی ہے اس لیے اداروں کو تصادم کی راہ پر جانے سے گریز کرنا چاہیے خاص کر اداروں میں بیٹھے لوگ عوام کے مسائل سے لاتعلق ہوکرانھیں مسلسل تقسیم اور معاشرے کو تباہ کررہے ہیں، اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں اورملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب لکھنے میں مصروف ہیں انہی لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں کبھی بھی معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہا ہے۔ شرح سود، زرمبادلہ، افراط زر اور قوانین میں اتنی تیزی سے ردوبدل کیا جاتا ہے کہ سرمایہ کار چکرا کررہ جاتے ہیں اوراہم فیصلے کرنے کے قابل نہیں رہتے بہت سے انوسٹر ایسے حالات سے مایوس ہو کر ملک ہی چھوڑ جاتے ہیں مگر اس نقصان سے کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 11 فیصد کمی اور مختلف صنعتوں کی بندش اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لیے ہمیں بطور محب وطن پاکستانی کے اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے ورنہ لوٹ مار تو رکنے کا نام نہیں لے رہی ابھی رمضان میں مہنگائی کا سامنا کیا ہے تو عید کی چھٹیوں پر گھروں کو واپس جانے والوں سے ترانسپورٹر حضرات بھی حساب برابر کرنے میں مصروف ہیں اور اس پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی جنہوں نے عےد الفطر کی آمد،صفائی وٹرےفک کے بہترےن انتظامات ،زائدکرائے کی وصولی اورون وےلنگ کی روک تھام کےلئے انتظامےہ اورپولےس کو ٹارگٹس دیے ہیں ایک اور اچھا کام محسن نے یہ بھی کیا ہے کہ مختلف پارکوں میں لگے جھولوں کے معیار کو بھی کرنے کا کہہ دیا ہے ورنہ جھولہ ٹوٹنے سے بچوں کی جانیں جاتی رہی ہیں امید ہے اس بار عید سعید خیریت سے گزر جائیگی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri