تارےخ حالات کا نوحہ ،کچھ نہ چھپانے والی ،سب کچھ بتانے والی اےک حقےقت کا نام ہے ۔تارےخ کے اوراق شاہد ہےں کہ جہاں کئی بار چشم فلک نے بڑے بڑے متکبر ،جلاد اور ظالم شہنشاہوں کا اپنے زمانہ اقتدار مےں بے گناہ عوام پر ظلم ،قہر اور نا انصافی کا منظر دےکھا وہاں خدائے زمانہ شہنشاہوں کو برے حالات مےں جھکڑے پا بجولاں ،بے بسی و لاچارگی کی تصوےر بنے دےکھا ۔فلپائن کے مارکوس اور شاہ اےران کو اپنے وطن مےں دفن کےلئے دو گز زمےن بھی مےسر نہ آ سکی ۔شاہ اےران ”شاہ رفت “ کا نعرہ لگنے کے بعد ےوں چوروں کی طرح بھاگا کہ اس کے توشہ مےں اےران کی محض مٹھی بھر خاک شامل تھی کہ پورے 37برس حکومت کرنے کے بعد اس وسےع و عرےض سر زمےن مےں اس کا اتنا ہی حصہ رہ گےا تھا ۔وہ مرا بھی تو قاہرہ کی اےک گمنام مسجد کے حجرے مےں مدفون ہوا ۔مارکوس کی اہلےہ ،جب عوام کا انتقام اس کے شاہی محل کے صدر دروازے پر ان کی بوٹےاں نوچنے کےلئے دستک دے رہا تھا تو اسے برہنہ پا ہےلی کاپٹر مےں بےٹھ کر جان بچانی پڑی لےکن تارےخ سے کوئی سبق نہےں سےکھتا ۔اےسا ہی منظر 21برس اقتدار مےں رہنے والی حسےنہ واجد جو پانچ مرتبہ وزےر اعظم بنےں ،کا دےکھنے کو ملا ۔مےرے واجب عزت قارئےن ےہ وہی حسےنہ واجد ہے جس کی مخالفت کے بارے مےں سوچنا بھی گناہ تھا ۔ جہاں کسی کی ماضی مےں محب وطنی بھی گناہ ، جرم اور اس کی سزا پھانسی بن گئی ۔مکافات عمل کے زےر اثر انہےں حسرت و ےاس کی تصوےر بنے ہےلی کاپٹر مےں بےٹھ کر بھارت بھاگنا پڑا ۔ افسوس کہ جس اقتدار کے دوام کےلئے ظلم کو فروغ دےا جاتا اور امن و امان کا قتل کےا جاتا ہے وہ بھی ان سے چھن جاتا ہے ۔پھر اےسا وقت آتا ہے کہ اپنے اقتدارو ثروت کے گزشتہ کے باعث اےام گزشتہ جو عےش اڑائے ہوتے ہےں ان گزری بہاروں کے افسانے ہی ےاد کرنے کو رہ جاتے ہےں ،جب بخت و اقتدار کا سور ج غروب ہو جاتا ہے اور دوبارہ اس کے طلوع ہونے کی امےد بھی نہےں رہتی تو عقل اپنے ٹھکانے پر آگرتی ہے ۔ دراصل ےہ دنےا مکافات عمل کی جگہ ہے ےہاں انسان جےسا بےج بوتا ہے وےسی ہی فصل کاٹنا پڑتی ہے ۔جس وزےر اعظم کے خلاف عوام نے اتنی نفرت کا اظہار کےا اس کی سربراہی مےں بنگلہ دےش نے بہت سارے حےران کن معاشی اہداف حاصل کئے ۔وہ 2009ءمےں دوسری بار وزےر اعظم منتخب ہوئےں اور مسلسل 15برس تک حکمران رہےں ۔حسےنہ واجد نے بنگلہ دےش کو ساﺅتھ اےشےا مےں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بناےا ۔ انفراسٹر کچر کو مضبوط کےا ۔بنگلہ دےش کی گارمنٹس انڈسٹری اےکسپورٹ کو چےن کے بعد دوسرے نمبر پر پہنچاےا ۔حسےنہ واجد کے دور ہی مےں بنگلہ دےش تےزی سے معاشی ترقی کرنےوالے 11 ملکوں مےں شامل ہونے لگا ۔ غربت کی شرح تےس فےصد سے بےس فےصد تک آگئی ۔حسےنہ واجد سے عوامی نفرت کی وجہ اپنے مخالفےن سے انتہا درجے کا متعصبانہ روےہ اور وہ ظلم تھا جو وہ اپنے سےاسی مخالفےن پر روا رکھتی تھےں ۔ان کے ساتھ جو ہوا وہ انہی کے پےدا کردہ حالات کا رد عمل تھا ۔حسےنہ واجد کا ےہ پانچواں دور حکومت تھا جہاں ان کی حکمرانی مےں سےاسی مخالفےن کے سوائے فسطائےت پر مبنی حالات ،سےاسی دشمنی ،انتقام ،گرفتارےاں ،پھانسےاں ،سےاسی جماعتوں پر پابندی اور بھارت نوازی کے کچھ نہےں تھا ۔ےہی وجہ بنی کہ وہاں سےاسی حالات اور شہرےوں کے بنےادی حقوق کی پامالی مےں کھےلے جانے والے کھےل مےں معاشی ترقی کا عمل بہت پےچھے رہ گےا ۔ان کی اہم سےاسی حرےف بنگلہ دےش نےشلسٹ پارٹی کی سربراہ جو دو مرتبہ وزےر اعظم رہ چکی ہےں انہےں 2018ءمےں پہلے پانچ سال قےد کی سزا دی گئی بعد مےں دس سال تک بڑھا دےا گےا ۔کہتے ہےں کہ انہوں نے سےاسی قےدےوں کےلئے اےک پر اسرار ”آئےنہ گھر “ تعمےر کر رکھا تھا جس مےں ان کے سےاسی مخالفےن کو سخت اذےتےں دی جاتےں ۔جماعت اسلامی کے اٹھارہ سے زائد لےڈران کو اےک نام نہاد بےن الاقوامی جرائم کے ٹربےونل نے مجرم ٹھہراےا اور پھانسےاں دی گئےں اور بہت سوں کو جےل کے اندر ہی موت کے گھاٹ اتار دےا گےا ۔49 سال قبل اگست1975ءمےں شےخ حسےنہ کے والد شےخ مجےب الرحمان جو بنگلہ دےش کے اس وقت صدر تھے ان کی اپنی ہی فوج کے ہاتھوں ان کے پورے خاندان سمےت ہلاک ہو گئے تھے ۔ان کی دو بےٹےوں شےخ حسےنہ اور شےخ رےحانہ بےرون ملک ہونے کی وجہ سے بچ گئےں ۔ وہاں بظاہر طالب علم کوٹہ سسٹم کے خلاف نکلے مگر حقےقتاًےہ نفرت کا اظہار تھا ۔ےہ کوٹہ سسٹم بنگلہ دےش مےں 1972ءمےں حسےنہ واجد کے والد شےخ مجےب الرحمان نے بنگلہ دےش کی حکومتی پالےسی کا حصہ بناےا تھا ۔بنگلہ دےش کے سول سروسز مےں 01فےصد مزدوروں ، 5 فےصد اقلےتوں ،10 فےصد عورتوں اور 10فےصد پسماندہ اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کےلئے کوٹہ مقرر کےا گےا ہے جبکہ30پرسنٹ کوٹہ عوامی لےگ سے تعلق رکھنے والے رہنماﺅں کے خاندانوں کےلئے مخصوص تھا ۔جھڑپوں مےں 300سے زائد طالب علم شہےد ہوئے ، سختےوں کے باعث غصہ تےز ہوتا گےا اور ےہی غصہ حکومت کے خاتمے کا باعث بنا ۔حسےنہ واجد کی اصل طاقت بھارت تھا مگر ان کے اس مشکل حالات مےں بھارت ےا مودی حکومت ان کے اقتدار کو نہ بچا سکی ۔جےسے ہی طلباءکوٹہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر آئے تو حسےنہ واجد نے انہےں ”رجاکار“ کا خطاب دےتے ہوئے بنگلہ دےش کی آزادی کے دوران البدر اور الشمس سے تشبےہ دےتے ہوئے انہےں دہشت گرد قرار دے دےا ۔مکافات کے تحت جب حسےنہ واجد زوال سے ہمکنار ہوئےں تو بنگلہ دےش آرمی چےف نے حسےنہ واجد کو 45منٹ کا الٹی مےٹم دےا ۔وہ الوداعی تقرےر بھی نہ کر سکےں اور ہےلی کاپٹر مےں بےٹھ کر ہندوستان بھاگنے پر مجبور ہو گئےں اور لوگ اس کے والد کے مجسمے کو ہتھوڑوں سے ضربےں لگا کر توڑ رہے تھے ۔نفرت کی ےہ چنگاری اےسی بھڑکی کہ ڈھاکہ مےں بھارت کے کلچر سنٹر اور جگہ جگہ اس کی باقےات کو تباہ کر دےا گےا ۔ہندوستان کےلئے شےخ حسےنہ واجد کی حکومت کا خاتمہ اےک بڑا دھچکا ہے ۔شےخ حسےنہ واجد کی نگرانی مےں بنگلہ دےش کو ہندوستان کا ماتحت سمجھا جا رہا تھا جبکہ لوگ اس ہندوستانی غلبے کو نا پسندےدگی کی نظر سے دےکھ رہے تھے ۔اب بنگلہ دےش کی پارلےمنٹ تحلےل ہو چکی ہے ۔تشدد اور بھرپور مزاحمت کے بعد ملک مےں نگران سےٹ اپ آ چکا ہے ۔طلباءکی جانب سے منتخب کردہ اےک بےنکر ،ماہر اقتصادےات اور نوبل انعام ےافتہ ڈاکٹر محمد ےونس عبوری حکومت کے سر براہ کی حےثےت سے حلف اٹھا چکے ہےں ڈاکٹر ےونس کی کابےنہ مےں طلباءبھی شامل ہےں جو جلد ہی ملک مےں نئے انتخابات کی راہ ہموار کرینگے ۔اب بنگلہ دےش دوبارہ نارمل حالات کی طرف بڑھ رہا ہے ۔بنگلہ دےش کے آرمی چےف نے کہا کہ اب عوامی لےگ کے سوا تمام سےاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر تمام فےصلے بنگالی آرمی کرے گی ۔ طلباءنے آرمی چےف کے اس فےصلے کو ماننے سے انکار کر دےا ۔طلباءکا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی عبوری حکومت کو تب تک نہےں مانےں گے جب تک ان کی مرضی و منشا کے مطابق حکومت ترتےب نہےں دی جائیگی ۔ان حالات مےں پاکستان کے بنگلہ دےش کے ساتھ تعلقات پر کےا اثر پڑے گا ےہ تعلقات کو ترتےب دےنے کا موقع ہے ۔شےخ حسےنہ واجد نے تو پاکستان کے ساتھ روابط منقطع کر دئےے تھے ۔ شےخ حسےنہ نے ماضی کی تلخےوں کو دفن کرنے سے انکار کر دےا اور اقوام متحدہ کے پلےٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے جھوٹے دعووں کا پرچار شروع کر دےا کہ 1971ءمےں تےس لاکھ بنگالی مارے گئے تھے حالانکہ مشرقی پاکستان مےں لاکھوں کی تعداد مےں بہاری اور دےگر افراد تھے جن کا جےنا مرنا اور تمام وفادارےاں صرف اور صرف پاکستان کے ساتھ تھےں ۔بنگلہ دےش کی علےحدگی سے قبل بنگالی قوم پرستوں اور ان کے مسلح دستے ”مکتی باہنی“ کے جو مسلح تصادم ہوتے تھے اس مےں سب سے زےادہ نقصان پاکستانےوں کا ہوا ۔وہ تمام افراد جو محب وطن پاکستانی تھے جو پاکستان اور پاک فوج سے محبت رکھتے تھے اور پاکستان کے ہی وفادار تھے انہےں چن چن کر قتل کےا گےا ۔بنگلہ دےش مےں حالےہ تبدےلی نے اےک بار پھر اس حقےقت کو عےاں کےا ہے کہ طلباءاور عوام کی طاقت ناقابل تسخےر ہوتی ہے اور ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔