مسلسل 14سال تک حزب اختلاف میں رہنے والی جماعت لیبرپارٹی 4 جولائی کے عام انتخابات جیتنے کے لئے اتنی ہی پرامید ہے جتنی حکمران جماعت کنزرویٹیو پارٹی ہے دونوں بڑی پارٹیاں داخلی اور خارجی پالیسوں پر منتشر و منقسم ووٹروں کا اعتمادحاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کے لئے اپنی انتہائی سی کوششیں کررہی ہیں اس وقت ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے ایک طرف تو طویل عرصے تک اقتدار کی گنگا میں سوار رہنے والی کنزرویٹیو پارٹی کی کشی بھنور میں پھنس گئی ہے اور ریت بھی اس کی مٹھی سے سرکتی جارہی ہے تو دوسری جانب لیبرپارٹی آتے ہوئے جوش اقتدار میں پکے ہوئے پھل کی خوشبو سونگھ کر للچائی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور انتخابی مہم کے دوران بہت سارے وعدے وعید کر رہی ہے ماضی قریب میں ایک وقت تھا جب کنزرویٹیو پارٹی کو دائیں بازو کی اور لیبرپارٹی کو بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا تھا یا پھر لیبرپارٹی کو غریبوں اور مزدور طبقے کی جماعت سمجھاجاتا تھا جبکہ کنزرویٹیو پارٹی امیروں اور تاجروں کی جماعت کہلاتی تھی لیکن اب دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں رہا ہے اسی لئے ووٹر بھی کنفیوژ نظر آتے ہیں کہ دونوں میں بنیادی فرق اب کیا رہ گیا ہے۔ لیبرپارٹی سابق لیڈر ٹونی بلیئر کے وقت نیو لیبر کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی اور اپنی تین ٹرم کے بعد اقتدار سے باہر ہوئی تھی اب لیبر لیڈر کئیر سٹارمر”تبدیلی“کا نعرہ لگا کر اقتدار کی دہلیز پر دستک دے رہے ہیں حالانکہ لیبرپارٹی کے دور میں ہم نے دیکھا کہ عراق کی جنگ ہو یا پھر افغانستان پر حملہ ہو لیبرپارٹی اور کنزرویٹو ایک ہی پیچ پر رہی ہیں اب بھی یوکرائن روس جنگ ہو یا اسرائیل کی غزہ کے مسلمانوں پر جارحیت ہو دونوں پارٹیوں کی پالیسوں اور سیاست میں کوئی فرق نہیں اور آئیندہ مستقبل میں بھی یہ سٹیس کو جاری رہے گا۔ برطانوی ووٹر روایتی طور پر ملک اور عوام کے بہترین مفاد میں ذاتی مفادات کو اہمیت نہیں دیتے اور امیدواروں سے زیادہ پارٹی کی پالیسیوں کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں لیبرپارٹی کو نئے ووٹر ووٹ دینے سے خوف زدہ بھی ہونگے کہ نجانے لیبرپارٹی ڈیلیور بھی کر پائے گی یا نہیں ایسے نوجوان جو پہلی دفعہ ووٹ دے رہے ہیں انہیں تو اندازہ ہی نہیں ہوگا کہ لیبرپارٹی کا دور ماضی میں کسطرح کا تھا جبکہ دوسری طرف لیبرپارٹی کے سابق لیڈر جرمی کوربن لیبرپارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے آزاد امیدوار بھی احتجاج کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں جو دونوں پارٹیوں سے نالاں یا برہم دکھائی دیتے ہیں جبکہ آپ حیران ہونگے کہ سو سے زائد ممبران اف پارلیمنٹ انتخابی سیاست کو ہی خیر اباد کہہ گئے ہیں انہوں نے بظاہر یہ موقف اختیار کیاکہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنی فیملیز کو دینے کے لئے ایسا کیا ہے ۔ کنزرویٹیو پارٹی میں بظاہر لیڈرشپ کا فقدان نظر آتا ہے پارٹی میں اندرونی طورپر اختلافات نظر آتے ہیں وزیراعظم رشی سوناک خیال کیا جاتا ہے کہ اگر اچانک الیکشن کا اعلان نہ کرتے اور کنزرویٹیو پارٹی کوئی اپنا نیا لیڈر چن لیتی تو شاید نتائج ٹوری کے لئے مختلف ہوتے لیکن انہوں نے اچانک الیکشن کا اعلان کرکے نئے لیڈر چننے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔دوسری طرف لیبرپارٹی نے مانچسٹر میں اپنے منشور کا اعلان کرتے ہوئے اکنامک گروتھ یا پیداوار میں اضافے کا جہاں وعدہ کیا ہے وہاں ٹیکس، نیشنل انشورنس، VATمیں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے وہاں NHSنیشنل ہیلتھ ٹرسٹ کو بہتر بنانے امیگریشن کی پالیسوں میں اصلاحات لانے کا بھی اعلان کیا ہے ڈپٹی لیڈر انجیلا رائنر نے بھی خطاب کرتے ہوئے اکنامک گروتھ اور اصلاحات پر الیکشن لڑنے کو اپنا مشن بنانے پر زور دیا ہے کئیر سٹارمر نے فلسطین کو آزاد ریاست کی حیثیت سے سپین،آئرلینڈ اور ناروے کی طرح اگرچہ تسلیم کرنے کا مختلف پلیٹ فارموں پر عندیہ تو دے رکھا ہے لیکن کوئی ٹائم فریم نہیں دیا اور نہ ہی پارٹی منشور میں اس کا ذکر ہے کہ وہ اگر وزیراعظم منتخب ہوگئے تو کتنے عرصے میں وہ فلسطین کو آزاد ریاست کی حیثیت سے قبول کرلیں گے یہ اگر مگر کی بات ہے جس سے تقریبا ساڑھے چار ملین برطانوی مسلمانوں سمیت فلسطین کے حمایتوں کی اکثریت میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے اسی طرح لوٹن، بریڈ فورڈ، برمنگھم مانچسٹر بولٹن اولڈہم پاکستانیوں اور کشمیریوں کی زیادہ سے زیادہ ووٹیں حاصل کرنے والی لیبرپارٹی نے کشمیر پر بھی کسی قسم کا وعدہ نہیں کیا ہے ماضی میں کشمیر لیبرپارٹی کے منشور کے حصہ رہا ہے اسی طرح فارن پالیسی میں لیبرپارٹی کے منشور میں فلسطین کا ذکر نہیں ہے ووٹروں کی آسانی کے لئے میں کالم کے آخر میں لیبرپارٹی کا پورا منشور آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور اگر اللہ نے موقع دیا تو دیگر جماعتوں کے منشور کا بھی سرسری احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا یاد رہے کہ تیسری بڑی جماعت لبرل ڈیموکریٹ پارٹی اس الیکشن میں کچھ پہلے سے زیادہ سیٹیں حاصل کرسکتی ہے۔