کالم

برطانیہ میں اردوصحافت کا پلیٹ فارم

برطانیہ میں پاکستانی میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں اس پیشے سے جڑے ہوئے صحافی لوہے کے چنے چبانے کے مترادف کمیونٹی کی خدمت کےلئے کام کررہے ہیں مقامی یا قومی سطح کے الیکشن ہوں یا یہاں کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں کمیونٹی کو باخبر رکھنا ہو اور ان کی بات کو اجاگر کرنا ہو پاکستانی میڈیا کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے اکثریت ایسے صحافیوں کی ہے جو اپنا اور اپنی فیملیز کا پیٹ پالنے کےلئے دوسری کوئی فل ٹائم جابس بھی کررہے ہیں جبکہ اس ملک کی برق رفتار زندگی میں جہاں گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ بھاگنا پڑتا ہے اور وقت ہی پیسہ ہے پاکستانی صحافی وقت نکال کر اپنے اپنے اداروں کے لئے کمیونٹی کی خبریں دیتے ہیں اور ایونٹس کی بھرپور کوریچ کرتے ہیں پاکستان کے اندر جو صحافی کام کررہے ہیں اگرچہ ان کا کام بھی مشکل ہے مگر انکا برطانوی پاکستانی صحافیوں سے موازنہ کیا جائے تو برطانیہ کے صحافیوں کو کئی اعتبار سے زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک تو پاکستانی میڈیا ہاﺅسز کی جانب سے یا تو ان کو اجرت یا فنانشل سپورٹ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے یا بالکل نہیں ہے۔ جن سے ان کا وقت ضائع ہوتا ہے اور عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے جو صحافی ٹی وی چینلوں کےلئے کام کرتے ہیں وہ نہ صرف اپنا سفری خرچ بھی خود ہی برداشت کرتے بلکہ ایونٹس کیکوریچ کرتے ہوئے خود ہی کمیرہ مین ہوتے ہیں اور رپورٹ بھی تیار کرتے ہیں صحافیوں پر یہ بھی پریشر اداروں کی طرف سے ہوتا ہے کہ اشتہارات لے کر دیں۔ پاکستان میں میڈیا ہاسز جسطرح خود مالی طور پر مشکلات یا سنسرشپ کے ڈر سے حکومتی اور اسٹبلشمنٹ کے پریشر میں رہتے ہیں ویسے ہی صحافیوں اور اینکروں پر دباﺅ ہوتا ہے جس سے انکی کریڈیبلٹی بھی متاثر ہوتی ہے اور عوام میں صحافی اور اینکرز بدنام ہوتے ہیں جیسے پاکستان میں ہوتا ہے ویسے ہی برطانیہ یا اوورسیز میں کام کرنےوالے پاکستانی صحافیوں کے ساتھ بھی سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ چینلز ، اخبارات اور صحافی کمپرومائزڈ ہیں اور اپنے پروگراموں اور نیوز میں وہ کچھ وہ نہیں دکھاتے جو ہورہا ہوتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ اوورسیز میں بھی مین سٹریم میڈیا کے ناظرین بالکل کم یا غائب ہو رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ اب سوشل میڈیا دیکھ رہے ہیں ۔ برطانیہ میں صحافیوں کو باہم ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور انکے مسائل کےلئے آواز آٹھانا انکو ایک لڑی میں پرونا انکے دکھ درد میں شامل ہونا ایک مشکل کام تھا اسی لئے پاکستان پریس کلب یوکے کا قیام 2009 -2010میں عمل میں لایا گیا ابتدا میں بانی مبین چوہدری مرحوم نے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنایا اور چند ساتھیوں کے ہمراہ صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا پھر یہ کاروں بڑھتا گیا نشیب وفراز آتے رہے صحافی اس کلب میں آتے رہے کچھ چھوڑ کر بھی جاتے رہے پھر پچھتاتے بھی رہے لیکن پاکستان پریس کلب یوکے نے اپنا سفر جاری رکھا اس کلب کے دروازے صحافیوں کےلئے ہمیشہ کھلے رہے ہیں پی پی سی یوکے کی کامیابی میں کچھ رہنما اصول بانی قائد مبین چوہدری مرحوم نے متعارف کروائے تھے جن میں پہلا اصول ہم نے کلب کو انڈیپنڈینٹ رکھنا ہے اس کلب کو کسی کی چھتر چھایا میں نہیں دینا ہے ۔ خفیہ کمروں سے دور رہنا ہے ۔ کلب سے وفاداری ممبران کی اولین شرط ہے۔ ہر سال کلب میں الیکشن کروانا تاکہ سب کو موقع ملے۔ اسلام کے خلاف مغربی ممالک میں منفی پروپیگنڈے سے مسلمانوں کو اگاہ رکھنا تاکہ وہ اسلام و فوبیا کی پیش بندی کر سکیں مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو ہر جگہہ اجاگر کرنا مغربی معاشروں میں اپنی اسلامی تعلیمات پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر یہاں مکمل انٹگریشن کرنا۔ انسانی حقوق کی پاسداری ، جمہوریت کی بقا اور ازادی اظہار رائے کےلئے کوشاں رہنا ہے ہمارے نزدیک اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کو پیش کرنا ہے اور مادر وطن کی خوشبو میڈیا کے زریعے اوورسیز پاکستانیوں تک پہنچانا ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل کا بھی تعلق پاکستان سے مضبوط ہو میں نے پاکستان کے بارے میں اپنے استاد محترم جنگ لندن کے سابق ایڈیٹر ظہور نیازی صاحب کو ہمیشہ ایسے ہی نظریات کا حامل پایا ہے جس پر وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک عمل پہرا رہے کاش حکومت پاکستان یا پاکستان ہائی کمیشن لندن مبین چوہدری مرحوم کی فیملی یا ظہور نیازی صاحب کو انکی پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے لازوال خدمات کے عوض ستارہ امتیاز سے نوازے تو صحافتی برادری کی حوصلہ افزائی ہو۔آپ نے ان دنوں میڈیا پر پاکستان پریس کلب یوکے کے الیکشن کی تشہیر سنی یا دیکھی ہوگئی ہمارے الیکشن 21اپریل کو پاکستان سنٹر منعقد میں یوکے پاکستان چیمبر آف کامرس کے سابق صدر نائید رندھاوا کی زیر نگرانی منعقد ہورہے ہیں یہ الیکشن ایک ایسے وقت میں ہورہے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ کے حالات اتنے خراب ہوچکے کہ اکتوبر سے اب تک پچاس ہزار کے قریب فلسطینی مارے جا چکے ہیں تیسری عالمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں اسرائیل کے خلاف میڈیا میں بات کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے برطانیہ کی بڑی جماعتوں کو اسرائیل کی حمایت پر کونسلرز اور ممبران آف پارلیمنٹ چھوڑ رہے ہیں دنیا جس طرح عالمی سطح پر تقسیم ہے ویسے ہی یوکے یورپ میں بھی وہی حالات ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر جس کو شہ رگ کہا جاتا ہے پر کوئی بات ہی نہیں کررہا ہے پاکستان میں بقول حامد میر 75سالوں میں پہلی دفعہ آزادی اظہار رائے پر سخت پابندی اس طرح کی لگی ہوئی ہے کہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ ٹیوٹر بند ہے باقی سوشل میڈیا کو بند کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اوورسیز پاکستانی اپنے ملک سے لاتعلق ہو رہے ہیں پاکستان داخلی،سیاسی معاشی، جمہوری اور آئینی طور پر بحرانوں کا شکار ہے ایسے میں پاکستانیوں کو متحد رکھنا بھی صحافیوں کی ذمہ داری ہے جب کہ صحافتی برادری کو خود زیادہ سے زیادہ متحد ہونے کی ضرورت ہے۔پاکستان پریس کلب کے گزشتہ الیکشن 29 جنوری 2023 کو منعقد ہوئے تھے اور میں بطورِ صدر بلا مقابلہ منتخب ہوا تھا مبین چوہدری مرحوم اور ہمارے ساتھیوں کے درمیان باہم مشاورت اور رائے عامہ ہموار ہو ئی تھی لیکن افسوس کہ اسی روز مبین چوہدری مرحوم کا انتقال ہوگیا تھا گزشتہ ایک سال سے مجھے پریس کلب کی مرکزی تنظیم کے تمام مخلص ساتھیوں سمیت لوٹن بریڈ فورڈ مانچسٹر مڈلینڈ اور شیفیلڈ کی ذیلی برانچوں کی بھرپور حمایت اور سپورٹ حاصل رہی جس پر سب کو تحسین پیش کرتا ہوں پاکستان پریس کلب واقعی ہی ایک خاندان اور فیملی ہے میرے دو دفعہ دورہ پاکستان کے دوران پی ایف یوجے، نیشنل پریس کلب اسلام آباد ، راولپنڈی پریس کلب لاہور پریس کلب، گوجرانوالہ پریس کلب کھاریاں پریس کلب، کشمیر پریس، میرپور پریس کلب اور دیگر صحافیوں کے ساتھ جہاں بھی مجھے موقع ملا میں نے پاکستان پریس کلب کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے اور جس بھی پلیٹ فارم پر میں گیا ہوں میں صحافیوں کے حقوق اور جمہوریت اور آئین کی بالادستی سمیت اوورسیز پاکستانیوں کی بات کی ہے اب جبکہ میں صدارت سے سبکدوش ہو رہا ہوں میرا رول ایک ایگزیکٹو ممبر کی طرح کا مرکزی باڈی میں رہے گا لیکن اب پریس کلب کے انتخابات میں نئے عہدیداروں اور امیدواروں کی زبردست ٹیم سامنے لائی جارہی ہے جس میں خواتین بھی شامل ہیں اس وقت معروف صحافی پرانے یونینسٹ اور پریس کلب کے بانی صدر مبین چوہدری کے دیرینہ ساتھی ارشد رچیال بلا مقابلہ مرکزی صدر منتخب ہوچکے ہیں یاد رہے ارشد رچیال اس سے پہلے بھی صدر اور مرکزی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں اسی طرح سینیئر نائب صدرمرزا آفتاب بیگ جن کا تعلق اے آر وائی سے ہے وہ بھی بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں آفتاب بیگ کو تعلیم، تربیت، شائستگی رواداری ، رکھ رکھا،سچائی، صاف گوئی اور وفاداری یہ سب کچھ اللہ نے ودیعت کیا ہوا ہے ان کی پاکستان پریس کلب یوکے سے وفاداری شروع دن سے ہی ہے اور مختلف عہدوں پر پہلے بھی منتخب ہوتے رہے ہیں پریس کلب کے لئے انجن کی طرح شروع دن سے ہی کام کرنے والے مسرت اقبال جنرل سیکرٹری کے عہدے کےلئے ایک اور نامی گرامی فوٹو گرافر جرنلسٹ غلام دستگیر خان سے مقابلہ کررہے ہیں دونوں پریس کانفرنس کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں نائب صدور کی دو پوسٹوں کےلئے سنیئر صحافی اور کشمیر پوسٹ کے ایڈیٹر ساجد یوسف کا مقابلہ نوجوان صحافی مصنف کالم نویس اور سنو ٹی وی کے نمائندے اسرار راجہ اور محترمہ مونا بیگ جو کئی دفعہ ایگزیکٹو ممبر رہ چکی ہیں کہ درمیان مقابلہ ہے جبکہ نادیہ راجہ انفارمیشن سیکرٹری، دنیا نیوز کے نمائندے اور صحافتی دنیا کے درخشندہ ستارے ساجد عزیز فنانس سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری معروف صحافتی اور سماجی شخصیت شکیل انجم بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ہیں ایگزیکٹو کی کل سات نشستوں پر 9 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے جن میں معروف صحافی اور شاعرہ سیدہ کوثر، سابق انفارمیشن سیکرٹری عمران راجہ، اوصاف لندن کے سابق انچارج عدیل خان، وائس آف بریٹن کے عتیق چوہدری امجد فاروق، ڈاکٹر راجہ اظہر محمود ، لندن سے سید سبطین علی ، سید فیاض شاہ اور نمایندہ جنگ لائق علی خان شامل ہیں جبکہ پاکستان پریس کلب کے ممبران کی کل تعداد 140ہے پاکستان پریس کلب یوکے کے سبکدوش ہونے والے ممتاز صحافی اور زاہد نور نے گزشتہ ایک سال میں جس طرح پریس کلب کے تمام تنظیمی امور کو پیشہ ورانہ انداز میں صبر و تحمل سے چلایا یقینا وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں پاکستان پریس کلب کے ممبران میں اکثریت ورکنگ جرنلسٹوں کی ہے یاد رہے کہ مبین چوہدری کی وفات کے بعد پاکستان پریس کلب کے روح رواں سابق سینئر نائب صدر چوہدری اکرم عابد کا کردار اہم ہے جنہوں پاکستان پریس کلب یوکے کے تمام عہدیداروں اور ممبران کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا نئے ممبران میں تکبیر ٹی وی کے ہیڈ اف پروگرامنگ ٹی وی اینکر حافظ مسعود عالم، راجہ اعجاز شائق تیمور لون اقدس مغل، ہدایت ٹی وی کی اینکر فائزہ نقوی، اہلبیت ٹی وی کے ہیڈ اف پروگرامنگ ابوذر شامل ہیں نئی ممبرشپ الیکشن کے بعد شروع کی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے