بلاشبہ ملک میں عا م انتخابات بروقت ہونے چاہئیں، آئے روزملک کی معیشت کی حالت درگرگوں ہوتی جارہی ہے ، مہنگائی سے عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہورہی ہے۔آئینی وقانونی تقاضابھی یہی ہے کہ عام انتخابات بروقت ہوں۔اسی سلسلے میں گزشتہ روز نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورت حال کے باوجود الیکشن التوا کا امکان دکھائی نہیں دے رہا، انتخابات کا انعقاد بنیادی طور پر قانونی اور آئینی لحاظ سے الیکشن کمیشن کا کام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے کام کو انتہائی ایمانداری سے سرانجام دینے جا رہے ہیں اور وہ اس پراسس کو پہلے ہی شروع کر چکے ہیں، جس کے کچھ آئینی تقاضے وہ پورے کررہے ہیں، جس میں کچھ حلقہ بندیوں سے متعلق ہیں اور جلد ہی الیکشن کمیشن دن کا تعین بھی کردے گا اور انتخابات کا اعلان بھی جلد ہو جائے گا۔ انتخابات کے انعقاد میں معاونت کے سلسلے میں نگراں حکومت کئی اقدامات کر چکی ہے۔ ایسا نظر نہ آنے کا ایک پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تشہیر کم ہو رہی ہے لیکن ایسا قطعاً نہیں ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ہم کوئی اقدامات نہیں کررہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نگران حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مختلف ضروریات کو پورا کرنے اور جہاں تعاون درکار ہو، وہاں ذمے داری ادا کررہے ہیں۔صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کی تجویز سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس پر حکومت کا اعتراض نہیں بنتا۔ یہ بات پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ مینڈیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے، نگران حکومت کا نہیں۔ نگران حکومت نے صرف معاونت کرنی ہے۔ اس سلسلے میں اخراجات یا سکیورٹی کے حوالے سے ذمے داریاں نگراں حکومت نیک نیتی کے ساتھ پوری کررہی ہے۔ اگرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم بیک وقت ان چیلنجز اور خطرات پر بھی قابو پا لیں گے اور انتخابات کے حوالے سے جو کام کرنا ہے، اسے بھی ہم مکمل کروائیں گے۔ اگرچہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے۔ امن و امان اور سرحدی صورتحال کے باعث سردست عام انتخابات کے التوا کا امکان دکھائی نہیں دیتا لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پا لیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کروا لیں گے۔دورہ امریکا کے حوالے سے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ تنازع کشمیر کا ایجنڈا اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بہت پرانا ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم تواتر کے ساتھ کشمیر کے کیس کا دفاع اور اس کی وکالت مختلف بین الاقوامی فورمز پر کرتے رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، کشمیر کو ایک بڑی جیل کی صورت میں تبدیل کردیا گیا ہے اوروہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو قیدیوں کی طرح محصور کردیا گیا ہے، ان کی آواز دبائی جا رہی ہے۔پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق ایسی کوئی خلاف ورزیاں نہیں ہیں، جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسی کے نتیجے میں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں کسی کا نام بھی لینے پر کوئی پابندی نہیں، کسی کا بھی نام لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ اگر سب سے بہتر نہ بھی سہی، مگر بہت بہتر ضرور ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے، پاکستان کے حکومتی اور ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے، پاکستان میں معاشی اصلاحات کے حوالے سے کوئی ایسا ایشو نہیں ہے جس میں آپ کو اپنی صدا بلند کرنے کی اجازت نہ ہو یا اسے میڈیا پر چلانے کے مواقع دستیاب نہ ہوں۔ پاکستان کے پاس دفاع کا حق موجود ہے، ہم اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کی حفاظت کےلئے جہاں جہاں کارروائی ضروری سمجھیں گے، وہ ہم ضرور کریں گے۔ میں کسی مخصوص آپریشنل فیصلوں سے متعلق بات نہیں کررہا جو پاکستان کر سکتا ہے، مگر جب حالات کے لحاظ سے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی تو ہم وہ فیصلے لیں گے اور وہ نظر آ جائیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ایسا بالکل نہیں ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت نہیں ہو رہی۔ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ بڑی ریگولر تجارت ہو رہی ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے چند معاملات تھے، جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس میں ایک پہلو غیر قانونی تجارت کا آ رہا تھا، جس پر ہم فوکس کرکے دور کررہے ہیں۔ ہمارے تجارتی تعلقات افغانستان سمیت وسطی ایشیا کے ساتھ مزید بہتر ہونے جا رہے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ
پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹروں نے کرایوں میں من مانا اضافہ کردیا۔گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے سے اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں بھی اچانک اضافے نے شہریوں کو پریشان کردیا۔ایک ماہ میں پٹرولیم مصنوعات میں دو مرتبہ بڑے اضافے کے بعد راولپنڈی اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ کرایوں کا کنٹرول نظام مکمل غیر فعال ہوچکا ہے۔ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی 15 دن بعد پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے سامنے بے بس ہوچکی ہے، جس کے بعد پبلک ٹرانسپوٹروں نے من مانے کرائے بڑھا لیے ہیں ۔ راولپنڈی اسلام آباد اسٹاپ ٹو اسٹاپ کرایہ 40روپے سے بڑھ کر 50روپے ہوگیا۔گڈز ٹرانسپورٹ کرایوں میں بھی 10کلومیٹر پر 200روپے کا اضافہ کردیا گیا جس سے دودھ، گوشت ، سبزی، فروٹ تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ الائنس کے صدر ملک شہزاد اعوان نے دس فیصد کرائے بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرول کی قیمت میں یکمشت 26 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 17روپے کا اضافہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ پہلے پی ڈی ایم اور اب نگران حکومت عوام سے جینے کا حق چھین رہی ہے، پی ڈی ایم حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے امپورٹ ایکسپورٹ پہلے ہی تقریبا ختم ہو چکی ہے، ہم صرف اس لیے اپنی ٹرانسپورٹ کو چلا رہے ہیں کہ ملک کا پہیہ چلتا رہے، ہم اپنی ٹرانسپورٹ کو بطور احتجاج کھڑا کر سکتے ہیں تو لاکھوں لوگ بیروزگار ہوجائیں گے۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے ورنہ بحران کا خدشہ ہے، مہنگائی مارچ کرنے والوں کی اس درندگی میں بھی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کرایے بڑھنے سے غریب آدمی کی کمر ٹوٹ گئی ہے، پہلے پبلک ٹرانسپورٹ پر غریب آدمی غمی خوشی پر چلا جاتا تھا، اب پبلک ٹرانسپورٹ کا سفر بھی غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا۔
آئی ایم ایف کاگیس کی قیمتوں میں اضافے کامطالبہ
آئی ایم ایف نے گیس کا ریٹ بڑھا کر 435 ارب روپے جمع کرنے کا مطالبہ کیا ہے،آئی ایم ایف گیس کے ریٹ بڑھانے میں کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں۔گیس چھوٹے صارفین کو ریٹ میں اضافے سے بچانے کےلئے نگران حکومت کی کوششیں کررہی ہے اور آئی ایم ایف سے استدعا کی ہے کہ گیس کے چھوٹے صارفین کےلئے گیس مہنگی نہ کی جائے، نگران حکومت گیس کے 64 فیصد صارفین کو بچانے کےلئے حکمت عملی بنانے لگی، یکم اکتوبر سے گیس کے ریٹ 45 فیصد تک بڑھانے کی تیاریاں ہورہی ہیں،گیس کے ریٹ میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا،گیس صارفین اکتوبر تا دسمبر کے بلوں میں جولائی تا ستمبر کے واجبات کلیئر کریں گے،گیس کے ریٹ میں اضافے کا اطلاق بڑے گھریلو صارفین پر بھی ہوگا، کمرشل صارفین، تندور اور ہوٹلوں کےلئے بھی گیس مہنگی ہونے کا امکان ہے۔صنعتی صارفین اور سی این جی کیلئے بھی گیس مہنگی ہونے کاامکان ہے،کھاد کارخانوں اور اسٹیل انڈسٹری کےلئے بھی گیس مہنگی ہونے کا امکان ہے۔عام آدمی کی زندگی پہلے بھی اجیرن بنی ہوئی ہے اوپر سے آئی ایم ایف مزیدشرائط پوری کرنے کے لئے اس کے زخموں پرنمک پاشی کررہاہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور اشیاءضروریہ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں نے غریبوں اورمزدوروں کی زندگی عذاب بنادی ہے۔ملکی پیداوار والی اشیاءکی قیمتیں بھی حکومتی کنٹرول اور عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ موجودہ مہنگائی کے آگے بندباندھنے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے ۔لوگ آٹا،چینی جیسی چیزوں کو ترس رہے ہیں۔لہٰذاحکمران ہوش کے ناخن لیں اورآئی ایم ایف کی مزیدشرائط ماننے کے بجائے غریبوں کے لئے کوئی پالیسیاں بنائیں۔
اداریہ
کالم
بروقت انتخابات کاعندیہ
- by web desk
- ستمبر 18, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 569 Views
- 1 سال ago