کالم

بلاول اور شہباز کے درمیان مقابلے کا ماحول

پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستا ن مسلم لیگ ن ماضی میں نظریاتی اور سیاسی طورپر ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔ 90ءکی سیاست میں میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہونے سے یہ مخاصمت ختم ہوئی اور 2006 میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کئے گئے مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت میں مل کر سولہ ماہ کام کر چکی ہیں۔ جب سے انتخابات کا عمل شروع ہوا ہے ، دونوں جماعتیں ایک دوسرے کےخلاف الزام تراشی میںمصروف ہو گئی ہیں۔ دونوں جماعتیں اب بھی ایک ہی ہیں ۔ اصل میں یہ اقتدار کی جنگ ہے جس میں ہر چیز جائز ہے۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ بلاول اور شہباز شریف نے جعلی مقابلے کا ماحول بنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ تیر اور شیر کا مقابلہ ہے، یہ شیر نہیں بلی ہے۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی 90 کی دہائی کا ڈرامہ پیش کر رہی ہیں۔ حقیقت میں یہ دونوں ایک ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو ووٹ دینا دوسرے کو سپورٹ کرنے کے مترادف ہے۔استعمار کی سہولت کار سالہا سال اقتدار میں رہنے والی خاندانوں کی پارٹیاں صبح مفادات کی خاطر جھگڑتی، شام کو ایک ہو جاتی ہیں۔ قوم خاندانوں کی سیاست سے بیزار ہو چکی۔ اداروں نے انہیں اس دفعہ بھی مسلط کیا تو عوام تسلیم نہیں کریں گے۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے چوتھی باری کے خواہش مند ہیں۔ اب باریوں کا دور چلا گیا، عوام حق حکمرانی ما نگ رہے ہیں۔
سولہ ماہ اقتدار میں ساتھ رہنے والی پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتوں میں دوریاں کوئی ناسمجھ آنے والی بات نہیں۔ دونوں ہی اقتدار کے ایوان تک رسائی چاہتی ہیں اور اسی وجہ نے انہیں حلیف سے حریف بنادیا ہے۔ ویسے بھی سیاست میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں نہ ہی دشمن۔ وقت اور مفادات آپ کو کسی کے ساتھ یا کسی کے خلاف کھڑا کر دیتے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے اپنے سیاسی بیانیے نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کی کارکردگی کو نمایاں کیا ہے جبکہ 16 ماہ کی حکومت کو مجبوری کا نام دیا ہے۔ساتھ ہی وہ 16 ماہ کی کارکردگی کے سیاسی Baggage کو اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے ساتھ شیئر کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کا بیانیہ کہ حکومت تو مسلم لیگ ن کی تھی، ان کا وزیراعظم اور وزیرخزانہ تھا کہ جواب میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی فرارکی راہ دینے پرآمادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت پیپلزپارٹی کے اس بیانیے کوبظاہر ہر جگہ کاونٹر کرتی نظر آتی ہے مگر حقیقت میں ایسی بات ہے نہیں۔ انہوں نے پاک ایران تعلقات بارے کہا کہ پاکستان، ایران اپنے مسائل مذاکرت کے ذریعے حل کریں۔ اگر دہشت گردی پاکستان اور ایران میں ہے تو یہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ حیران ہوں ایران نے اچانک ایسا کیوں کیا۔ ہم چاہتے ہیں دونوں ممالک باعزت طریقے سے مذاکرات کریں۔ ایک دوسرے کی حدود میں داخل ہو کر کارروائی سے تعلقات مزید خراب ہوں گے۔ دونوں ممالک کی خرابی سے بھارت، اسرائیل اور امریکا کو فائدہ ہوگا۔ پڑوسیوں کے درمیان کوئی لڑائی ہوتی ہے تو فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے۔ دہشت گرد پکڑنے کےلئے پاکستان میں قوانین موجود ہیں۔
پاک ایران سرحد (بلوچستان) میں پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی اور حملہ کے حوالے سے نائب امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ برادر پڑوسی ملک ایران کیساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط تاریخی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار ہیں۔ بین الاقوامی تنازعات، خارجہ امور بالخصوص امریکہ، یورپ، مشرقِ وسطیٰ، افغانستان سے متعلق دونوں برادر ملک یکساں مو¿قف اور پالیسی رکھتے ہیں۔ ایسے میں پاک-ایران سرحد پر پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی اور حملہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی کارکردگی کے پر سوالیہ نشان ہے۔ دیرینہ برادر اسلامی ملک ایران کیساتھ پ±رامن تعلقات کی فضا کو برقرار رکھنا اور دونوں ملکوں کے درمیان کسی قسم کی کشیدگی، غلط فہمی کو روکنے کے لیے تمام سفارتی چینلز کو بروقت متحرک رکھنا قومی سلامتی سے متعلق اداروں/وزارتِ خارجہ حکام کی ذمہ داری ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ پاکستان نے یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان کی قومی سلامتی اور قومی مفادات پر کوئی مفاہمت نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان یو این چارٹر کے اصولوں پر قائم ہے اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ پر یقین رکھتا ہے۔ پاکستان ایران کے ساتھ دہشت گردی سمیت مشترکہ چیلنجز پر دوطرفہ بات چیت کا قائل ہے جس سے کبھی گریز نہیں کیا گیا۔ پاکستان کو ایران میں بلوچ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا عرصے سے علم ہے جس سے ایران کو آگاہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری امن کی خواہش کو کوئی ہماری کمزوری نہ سمجھے۔ ایران میں موجود سرمچار دہشت گرد بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے ہیں جن کو نکیل ڈالنا ایران کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایران کی جانب سے دوبارہ پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوروز قبل جیسی کوئی کارروائی کی گئی تو پاکستان پہلے کی طرح فوراً بھرپور جواب دیگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے