جب داؤد خان کاکڑ جیسے ساتھی اسلام آباد آتے ہیں تو وہ صرف ملاقات کے لیے نہیں آتے، وہ بلوچستان کی خوشبو، وہاں کے دکھ، وہاں کی امید اور وہاں کی غیرت کو ساتھ لے کر آتے ہیں۔ داؤد خان کوئی عام سیاسی کارکن نہیں بلکہ وہ عمران خان کے ان فکری جانشینوں میں سے ہیں جن کی آنکھوں میں انقلاب، دل میں بلوچستان کی محبت اور زبان پر سچائی ہے۔ ان کی آمد اسلام آباد میں ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ہم جو پاکستان کے مختلف حصوں میں بیٹھے ہیں، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان ہم سے جدا نہیں، بلکہ ہمارے جسم کا وہ عضو ہے جس کا زخم پورے بدن کو تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جب ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی کو چوٹ لگتی ہے تو درد پورے جسم میں محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر بلوچستان کے کسی کوہِ سلیمان، گوادر، یا چاغی میں ظلم ہو، کسی ماں کی گود اجڑ جائے، یا کسی نوجوان کی لاش بے وجہ اٹھا لی جائے تو وہ درد صرف کوئٹہ تک محدود نہیں رہتا، وہ پورے پاکستان کی روح میں چبھتا ہے۔میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمیں بلوچستان جانا چاہیے، وہاں کے لوگوں سے ملنا چاہیے، ان کی بات سننی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی پی ٹی آئی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (CEC) کا اجلاس ہوتا، میری کوشش ہوتی کہ اپنی تقریر میں بلوچستان کا ذکر ضرور ہو۔ میں ساتھیوں کو یاد دلاتا کہ ہم سب ایک ہی بدن کے مختلف حصے ہیں۔ بدن کے ایک حصے کی تکلیف کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر اس حصے کی جو صدیوں سے زخم کھا رہا ہو۔بلوچستان کے زخم آج کے نہیں، یہ اس وقت سے ہیں جب پاکستان بننے کی ابتدائی منازل طے کر رہا تھا۔بدقسمتی سے وہاں کی محرومیاں، وسائل پر قبضہ، سیاسی بے دخلی، اور حقوق سے انکار نے ایک ایسا خلا پیدا کیا جو اب تک پر نہیں ہو سکا۔ جب بلوچستان کے نوجوان کو لگتا ہے کہ اس کی پہچان صرف اس کے وسائل کی وجہ سے ہے، اس کی وفاداری کو بار بار پرکھا جاتا ہے، اور اس کی ماں کی فریاد سنی نہیں جاتی تو وہ خفا ہوتا ہے، اور اس کی خفگی ایک دن غصے میں ڈھل جاتی ہے۔میں ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھا جس میں ایک میجر اور معروف صحافی ماریہ شامل تھیں۔ وہاں جب میں نے سوال کیا: میجر صاحبآپ کون ہیں؟ تو وہ گویا ہوا: آپ مجھے نہیں جانتے، مگر بلوچستان کا ہر بچہ، ہر ماں، ہر طالبعلم مجھے جانتا ہے۔ وہ سب میرے رابطے میں ہیں۔میں نے حیرت سے دیکھا اور کہا: تو پھر آپ ہی بتائیں کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے دلوں میں آگ کیوں ہے؟اس نے ایک جملہ ایسا بولا کہ محفل سن ہو گئی۔ اس نے کہا: انجینئر صاحب!آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ گولی کہاں سے آئے گی اور کہاں سے نکل جائے گی۔میں نے تھوڑا مسکرا کر کہا: بس یہ خیال رکھیے گا کہ گولی سامنے سے چلائیے گا، پیچھے سے وار نہ کیجیے گا کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جو دلیل سے لڑتے ہیں، دلیل سے جیتتے ہیں۔ بلوچستان صرف رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ نہیں، یہ دل کا سب سے بڑا کمرہ ہے لیکن اس دل میں مسلسل درد محسوس ہوتا ہے۔ ہمارا نوجوان شاید اس درد کو اس شدت سے محسوس نہیں کرتا کیونکہ وہ میڈیا، سوشل میڈیا، یا سیاست کے روزمرہ ہنگاموں میں گم ہے۔ اسے احساس ہی نہیں کہ اصل درد کہاں ہے، اصل مسئلہ کیا ہے۔بلوچستان کی سرزمین زرخیز ہے، مگر وہاں کے باسی بارود سے کٹ رہے ہیں۔ ہمیں ان کے دکھوں کو بانٹنا ہو گا، ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ ان کی بات سننا ہو گی۔ داؤد خان کاکڑ جیسے لوگ اس کام کے لیے بہترین مثال ہیں۔ وہ جب اسلام آباد آتے ہیں تو صرف ہوٹلوں میں ملاقاتیں نہیں کرتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ میڈیا سے، صحافیوں سے، پارلیمنٹ سے، اور ہر اس پاکستانی سے ملیں جو دل رکھتا ہے، جو درد رکھتا ہے، جو ضمیر رکھتا ہے۔میں نے ہمیشہ یہ چاہا کہ بلوچستان کے نوجوان کی آواز ایوانوں میں سنی جائے، اسلام آباد کے میڈیا ہاؤسز میں گونجے، اور فیصلوں کی میز پر اس کی مشاورت ہو۔ بلوچستان کے دکھوں پر نوحہ نہیں، عمل چاہیے۔ بلوچ نوجوان کو یہ باور کروانا ہوگا کہ وہ پاکستان کا اصل وارث ہے۔آپریشن لال مسجد کا درد ابھی تک ہماری اجتماعی سوچ میں موجود ہے۔ جب طاقت سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو درد اور نفرت جنم لیتی ہے۔ یہی فارمولا اگر بلوچستان میں استعمال ہوا تو پھر صرف لاشیں ملیں گی، محبت نہیں۔ ریاست کو ماں بننا چاہیے، جلاد نہیں۔ ہمیں لوگوں کو گم کرنا بند کرنا ہو گا، ان کے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔قرآنی پیغام ہمیں یہی سکھاتا ہے: "اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔القرآن، سورة الانعام، آیت 164 ۔ یہی عدل کا اصول ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ اجتماعی سزا اور انتقام قوموں کو توڑ دیتا ہے، جوڑتا نہیں۔بلوچستان کوئی الگ دنیا نہیں، بلکہ پاکستان کا وہ ماتھے کا جھومر ہے جسے ہم نے گرد میں چھپا دیا ہے۔ اسے صاف کرنا ہو گا، سنوارنا ہو گا۔ جو اس زمین کے بیٹے گم ہو گئے، ان کے ماں باپ کو انصاف دینا ہو گا۔ جو زندہ ہیں، انہیں گلے لگانا ہو گا۔ جو ناراض ہیں، ان سے معافی مانگنا ہو گی۔اسلام آباد میں ہونے والی یہ نشست محض نشست و برخاست نہ ہو، بلکہ ایک نئی شروعات ہو۔ ہمیں سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہو گا۔ ہمیں پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر انسانیت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ عمران خان نے ہمیشہ محروم طبقات کی آواز بلند کی، اب ان کی پارٹی کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھے، نہ کہ نمک چھڑکے۔داد خان کاکڑ ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ”عمران خان ہی اس ملک کو موجودہ بحران سے نکال سکتا ہے۔ان کے نزدیک عوام نے 8 فروری کو جو فیصلہ دیا، وہ حتمی اور مقدس ہے، اور اسی فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔ یہی جمہوریت کا تقاضا ہے، یہی آئین کا تقاضا، اور یہی بلوچستان جیسے دور افتادہ مگر بیدار صوبے کے نوجوانوں کی امید ہے۔عمر خیام کی ایک رباعی آج کے منظرنامے کو یوں بیان کرتی ہے:
ہر شام امیدوں کی گٹھڑی ٹوٹتی ہے
ہر صبح نئی امید پیدا ہوتی ہے
زخم پر زخم ملتے ہیں لیکن اے دل
پھر بھی زندگی سے محبت چھوٹتی نہیں
بلوچستان کے ساتھ محبت صرف لفظوں سے نہیں، عمل سے ثابت کرنی ہوگی۔ وسائل کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہیے، تعلیم، صحت اور روزگار میں انہیں برابر کا حق دینا ہو گا۔ جب تک بلوچ نوجوان خود کو مالک نہیں سمجھے گا، وہ اس زمین کے لیے سینہ تان کر نہیں کھڑا ہوگا۔میں پھر دہراتا ہوں، داؤد خان کاکڑ کی اسلام آباد آمد صرف ایک سیاسی سرگرمی نہیں، یہ ایک پیغام ہے۔ محبت کا پیغام، قربت کا پیغام، یکجہتی کا پیغام۔ بلوچستان کے بیٹے کی آواز پاکستان کے ہر فرد تک پہنچنی چاہیے۔ہمیں اب فیصلے کرنے ہوں گے۔ آئیں! مل کر یہ فیصلہ کریں کہ اب بلوچستان کی آنکھوں میں آنسو نہیں، خوشی ہو گی۔ اس کے بیٹوں کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں، قلم ہو گا۔ اس کی ماں کے لبوں پر فریاد نہیں، دعائیں ہوں گی۔ اور اس کی سرزمین پر بارود نہیں، بہاریں ہوں گی۔
کالم
بلوچستان: ایک زخم، ایک محبت، ایک پیغام
- by web desk
- اگست 5, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 9 Views
- 1 گھنٹہ ago