کالم

بلوچستان کی خواتین ،اور دہشت گردی

بلوچستان میں جاری سازشوں میں لتھڑی افراتفری اور عدم استحکام کو ہوا دینے کی تحریک اور اس کے پیچھے متحرک کرداروں سے کون واقف نہیں ہے۔اسکے تانے بانے کہاں تک بکھرے ہوئے ہیں اور اس کے تمام پس پردہ مقاصد سے ملک کا ہر چھوٹا بڑا اچھی طرح آگاہ اور چوکنا ہے۔ ملک کے سیکورٹی ادارے ان سازشوں کی بیخ کنی کےلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔عدم استحکام کی ناکام ہوتی کوششوں کے سر پرستوں نے اپنا وجود برقرار رکھنے کےلئے سادہ لوح مگر پڑھی لکھی نوجوان خواتین کا کندھا کس طرح استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے اس ضمن میں ”مورٹو ہر سٹوری“ (ایم ٹی ایچ ایس) کے تجزیہ نگار ایٹک گرچک جوکہ پاکستان میںاپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں نے ”بلوچستان کی خواتین کی چھپی ہوئی جنگ“ کے عنوان کے تحت غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا ہے،وہ لکھتے ہیں کہ: ایک بار عالمی صحت کی تنظیم کےساتھ اپنے کام کے ذریعے عوامی صحت کو بہتر بنانے کےلئے وقف 27سالہ ادیلا بلوچ کی زندگی اس وقت بدل گئی جب بلوچ لبریشن آرمی نے اسے اپنے ranksمیں شامل کرنے کےلئے بھرتی کیا۔ اسے بلیک میلنگ اور نفسیاتی ذرائع سے دباو¿ میں لایا گیا، اور ایک خودکش بم دھماکا انجام دینے کےلئے مجبور کیا۔ان کے والد خدا بخش نے مور ٹو ہر اسٹوریکو بتایا کہ جب میری بیٹی لاپتہ ہوئی، تو میں نے اسے تلاش کرنے کےلئے بہت کچھ کیا،اورآج حکومت کی حمایت اور اللہ کی رحمت سے، وہ آج میرے ساتھ ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ: صحیح اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہیں، شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہBLAنے خواتین کو اپنے ساتھ شامل کر کے اپنی رسائی کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسی خواتین جیسے ادیلا، شری، اور مہال بلوچ کی بھرتی کے پیچھے موجود ہیرا پھیری کی حقیقت اکثر ”مزاحمت “کے عنوان کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔عبدالحمید جومہال بلوچ کے والد ہیں،کا کہنا تھاکہ میں نے اپنی بیٹی کو کھو دیا ہے،میںادب سے درخواست کرتا ہوں کہ میری نسل کے لوگ اپنے بچوں کی فکر کریں اور انہیں تعلیم اور بااختیار بنانے کی طرف رہنمائی کریں، تاکہ وہ دہشت گردی کی گرفت سے دور رہ سکیں۔ BLAکے دہشت گردوں نے شری، مہال، اور ادیلا بلوچ جیسی خواتین کا استحصال سماجی، نفسیاتی، یا جنسی زیادتی اور ہیرا پھیری کے ذریعے کیا اور انہیں خودکش بمباروں میں تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔یہ مزاحمت نہیں ہے،یہ استحصال اور دہشتگردی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات،عطااللہ تارڑ نے ’مور ٹو ہر اسٹوری‘کےساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ:پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان، قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن اسے غربت، پسماندگی، اور جاری باغیانہ حالات جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کئی دہائیوں سے بلوچ علیحدگی پسند گروہ پاکستانی ریاست کےساتھ تصادم میں مصروف ہیں، جو سیاسی نمائندگی اور اقتصادی عدم مساوات کے خدشات کی بنا پر ہے۔بی ایل اے ابتدا میں خود مختاری کےلئے ایک سیاسی تحریک کے طور پر تشکیل پائی جو بعد میں ایک مسلح باغی گروپ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ حالیہ رپورٹس اشارہ کرتی ہیں کہ بی ایل اے نفسیاتی ہیرا پھیری اور دباو¿ کے ذریعے خواتین خاص طور پر کمزور افراد کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔محض 2024میں، بی ایل اے نے متعدد حملے کیے، جن میں ایک رات کا حملہ بھی شامل تھا جس میں10 افراد،بشمول سیکیورٹی اہلکارجاں بحق ہوئے،کئی دیگر اضلاع میں بھی حملے ہوئے اور سیکیورٹی فورسز اور ہائی ویز کو نشانہ بنایا گیا۔ کراچی کے جناح ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش بم دھماکے میں دو چینی شہری ہلاک اور بہت سے دیگر زخمی ہوئے۔ دہشت گردی خوف پھیلانے اور غربت کو گہرا کرنے کے ذریعے بلوچستان کی ترقی کو مفلوج کر نے کی کوشش ہے۔ بلوچستان میںعدم استحکام کی تحریک کی جڑیں گہری ہیں اور غربت اس بغاوت کے لئے زرخیز زمین فراہم کررہی ہے۔بدقسمتی سے اقتصادی راہداری(CPEC) جیسے بڑے منصوبے کولوگوں کی نظر میں استحصال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اس تاثر کو ہوا دی جا رہی ہے کہ ،اس سے بیرونی افراد امیر جبکہ مقامی کمیونٹیز غربت میں مبتلا ہو جائیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے