وطن عزیز کے سیاسی اور سفارتی حلقے اس امر پر متفق ہےں کہ پاک چین دوستی بلاشبہ انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے گویا ”یہ پون صدی کا قصہ ہے،دو چار برس کی بات نہےں“‘۔اس حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت نے پاک چین تعلقات کو بہتر بنانے میں موثر کردار ادا کیا ہے۔چند روز قبل چین کے وزیر اعظم پاکستان آئے اور اس موقع پر سی پیک کے دوسرے مرحلے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا ۔ یہاں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بلوچستان میں CPEC کے تحت بہت سے منصوبے مکمل کیے گئے ہیںجن سے صوبے کے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ مبصرین کے مطابق بلوچستان کے مقامی لوگوں کے لیے CPEC خاص طور پر تعمیرات، ٹرانسپورٹ وغیرہ میں روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا کرے گا۔ سڑکوں، بندرگاہوں، اور توانائی کے پلانٹس سمیت بہت سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں نے ہنر مند کے لیے ملازمتیں پیدا کی ہیں جس سے بلوچستان کے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔یاد رہے کہ نئی سڑکیں، ہائی ویز، اور ریلوے دراصل تجارت، نقل و حرکت، اور مقامی آبادی کے لیے خدمات تک رسائی کو بہتر بناتی ہیں اور گوادر ایک چھوٹے سے ماہی گیری شہر سے ایک بڑے اقتصادی مرکز میں تبدیل ہو رہا ہے ۔اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ گوادر کی ترقی سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا، روزگار میں اضافہ ہوگا، اور خطے کی اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔مبصرین کے مطابق سی پیک (CPEC) منصوبوں نے پاور پلانٹس کے قیام اور انرجی گرڈ کو اپ گریڈ کرکے بلوچستان میں توانائی کی کمی کو پورا کیا ہے۔اسی ضمن میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان منصوبوں کے ذریعے لائی گئی مجموعی اقتصادی ترقی، جیسے صنعتی زونز اور اقتصادی زونز، کا مقصد مقامی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔ چھوٹے کاروبار اور مقامی صنعتوں، خاص طور پر ماہی گیری، کان کنی، اور زراعت جیسے شعبوں میں، منڈیوں تک بہتر رسائی سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے علاوہ ازیں صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم میں جدید انفراسٹرکچر کے قیام سے بلوچستان میں صحت کی سہولیات، اسکولوں، اور دیگر سماجی خدمات میں بہتری آئی ہے۔ چینی اور پاکستانی حکومتوں نے مقامی آبادی کے لیے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے اور اس ضمن میںبلوچستان میں پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کے قیام کو عمل میں لایا گیا ہے۔دوسری جانب کسے معلوم نہےں اقوامِ عالم کی حالیہ تاریخ میں یوں تو کئی ملکوں نے ترقی کے مراحل طے کیے ہیں مگر جس طرح گذشتہ ساڑھے تین عشروں میں عوامی جمہوریہ چین نے خود کو ایک علاقائی قوت سے عالمی طاقت میں تبدیل کیا ہے یہ ایسا معاملہ ہے جس پر پوری دنیا حیران ہے ۔ دنیا کا ہر ملک چاہے وہ چین کا حامی ہو یا و¿مخالف اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ چین نے معجزانہ طور پر ترقی کی منازل طے کی ہیں اور آج ایک جانب وہ دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دفاعی شعبے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں بلکہ اکثر ماہرین متفق ہیں کہ آنے والے چند برسوں میں وہ امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر سب سے بڑی عالمی قوت کی حیثیت اختیار کر لے گا اور چین کو یہ مقام اپنی بے لوث قیادت اور گڈ گورننس کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی دنیا بھر میں ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے اور سی پیک پر ہونیوالی حالیہ پیشرفت کے بعد تو یہ اس مقام پر پہنچ چکی ہے جس کا اعتراف بدترین مخالفین کو بھی کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ اقتصادی راہداری کی تعمیر و ترقی جس ٹھوس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں پاکستان اور خطے کے دوسرے ملکوں کو آپس میں منسلک کر رہے ہیں جن سے نہ صرف پاکستان اور چین کے لئے معاشی ترقی کی راہیں کھلیں گی بلکہ خطے کی مجموعہ ترقی قابلِ رشک رفتار سے آگے بڑھے گی ۔ اور اس کے منطقی نتیجے کے طور پر آنے والے برسوں میں پاکستان اور چین ترقی کی نئی منزلیں طے کریں گے ۔ یہ منظر نامہ بہت سے نئے امکانات کو جنم دے گا ، آنے والے ادوار بہت سی نئی راہوں کو بھی متعین کریں گے ۔ یاد رہے کہ پاکستان کے عظیم دوست چین کے سربراہِ مملکت ” شی جن پنگ “ 20 تا 21 اپریل 2015 پاکستان کے دورے پر آئے تھے اس دوران انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے علاوہ اکنامک کاریڈور سمیت باہمی تعاون کے بہت سے معاہدوں پر دستخط کیے تھے ۔ پاکستان میں اس چینی سرمایہ کاری کی مجموعی مالیت 46 بلین ڈالر سے زائد تھی ۔ یہ بھی بھلا کیسے ممکن ہے کہ پاک چین تعلقات نئی اونچائیوں پر پہنچ رہے ہوں اور پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے اس کیخلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز نہ ہو ۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق دہلی سرکار نے پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف ایک ہمہ جہتی حکمتِ عملی پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس منصوبے کے لئے بھارت نے تین سو ملین ڈالر کی خطیر رقم مختص کی ہے ۔ اس کے تحت ایک جانب سفارتی اور پراپیگنڈہ مہم کے ذریعے شاہراہِ خوشحالی کو ہدف بنایا جائے گا تو دوسری طرف اپنے ایجنٹوں کے ذریعے باقاعدہ مسلح مداخلت کر کے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش بھی کی جائے گی ۔ بھارت کے زعفرانی انتہا پسندوں کے مذموم عزائم ساری دنیا جانتی ہے، مودی نے گذشتہ دس برس میں اپنی ساری توانائیاں بھارت کو اسلحہ سازی کے ایک بڑے کارخانے میں تبدیل کرنے پر لگا دی ہیں اور پوری دنیا میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا بھر کے اسلحہ ساز ممالک اور ادارے بھارت میں اسلحہ سازی کی صنعت میں براہ راست سرمایہ کاری کریں ۔ اور اپنے اس مشن کو موصوف ” MAKE IN INDIA “ کا نام دے رہے ہیں ۔ بہرکیف توقع کی جانی چاہیے کہ اقتصادی راہ داری اور دیگر منصوبوں کے حوالے سے چین کی جانب سے جو دستِ تعاون فراہم کیا گیا ہے ، قومی قیادت اس تاریخی موقع کو ضائع نہیں جانے دے گی اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرے گی اور اندرونی اور بیرونی مخالفین کی ان کوششوں کو ہر قیمت پر ناکام بنا یا جائے گا جو کہ خصوصا بلوچستان میں ترقی کی نئی راہوں کو ناکام بنانے کےلئے کی جا رہی ہیں اور خوشحالی کی اس شاہراہ کی تکمیل کو بروقت یقینی بنایا جائے گا ۔