الفاظ کے ہیر پھیر سے براہ راست لکھنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ لکھ کر بولا جاتا ہے کہ فوج ہر غلطی کی ذمہ دار ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی انہی کے کندھوں پر ڈال کر سیاستدان خود کو بابائے ملت و جمہوریت قرار دلاتے رہے ہیں ۔ واضح رہے جرنیلوں ججوں صحافیوں کی غلطیاں ہیں اور اس پر انہیں جوابدہ ہونا چاہیے ۔ انکو سزا دینا عدالت اور حکمران کی صوابدید ہے۔ آپ مار دو مروا دو اٹھوا لو رسوا کرو ننگا کرو کر سکتے ہو کیونکہ طاقت اختیار اقتدار آپکا ہے ۔ کسی جرنیل جج حکمران کو اسکی غلطی بتانا اور اسے دور کرنے کا کہنا ہرگز جرم نہیں ۔ صاحب اقتدار و اختیار کا کوئی استحقاق شریعت یعنی اللہ کی طرف سے معین نہیں کہ وہ احتساب سے بالا ہے ۔ خود ساختہ استحقاق اور قوانین اللہ کے قوانین کے برخلاف ہیں ۔ ان پر عمل اللہ کے قوانین کے دائرہ سے انحراف ہے ۔ غلطی انسان سے ہو جاتی ہے تسلیم کر کے اس پر معافی چاہنا اور اسکا ازالہ کرنا اصل انسان کی خصلت ہے ۔ غلطی پر ڈٹ جانا اس پر دلائل دینا اور فخر کرنا شیطانیت ہے ۔ ملک کے نظام کو چلانے کی ذمہ داری سیاستدان کی ہے ۔ اگر وہ اسکو نہیں چلا پاتا تو یہ اسکی نااہلی ہے ۔ کوئی بندہ کسی طریقہ سے سفارش رشوت جعل سازی سے گاڑی چلانے کا لائسنس لے اور پھر کہیں حادثہ کر دے تو وہ کیا کرے گا سب سے پہلے حادثہ کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر اپنے آپکو بچانے کی کوشش کرے گا ۔ اسے دوسرے ڈرائیور پر ڈالے گا سڑک خراب ہونے اپنی گاڑی کا کوئی نقص بتائے گا ۔ کبھی نہیں کہے گا میری غلطی تھی جس سبب حادثہ ہوا ۔ ہمارے سیاستدان بھی ایسے ہیں ۔ سفارشی موروثی جعلی طریقہ سے بنائے گئے ۔ غلطی کرتے ہیں دوسرے پر ڈال کر خود کو بچانے کی کرتے ہیں ۔ سیاستدانوں کی کامیاب سیاست یہی ہے کہ انہوں نے اداروں کو استعمال کیا اور انکو رسوا بھی کیا ۔ سیاستدان ریٹائر نہیں ہوتا چیف جسٹس آرمی چیف آئی جی نیب چیئرمین ہر ادارہ کے سربراہ کی مدت مقرر ہے ۔ اگر ڈاکٹر قدیر ناگزیر نہیں تھے تو اس ملک کیلئے یوسف رضا ناگزیر کیسے اور کسی کا ایکسٹینشن دینے کا ایک ہی مطلب اور مقصد اسکو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنا ہے ۔ یہی ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے ۔ ڈاکٹر قدیر اور انکی ٹیم کے بعد کام چل رہا ہے تو پھر کسی جج جرنیل بیوروکریٹ کو کس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لگایا جاتا ہے یا تو اسکو استعمال کرنا ہے یا پھر اسکو استعمال کے بعد خدمات کا صلہ دینا ہے ۔ یہ کون کرتا ہے لازمی بات ہے ملک چلانے کا ذمہ دار ہی کرتا ہے ۔ ادارہ کا سربراہ نااہل ہے تب وہ اپنے نیچے کام کرنے والوں کا محتاج ہو گا ۔ پھر جو مطلب کا مشورہ دے تو وہ بھی تو کہیں اپنے لیے کچھ مانگے گا ۔ آپ اسکے مشورہ مدد کے محتاج ہو تو یقینا آپ اسکی ضرورت پوری کرنے میں مدد دو گے۔ بس یہی تمثیل ہمارے حکمرانوں انکو استعمال کرنے والوں اور استعمال ہونے والوں کو آشکار کرتی ہے ۔اپنے اقتدار اختیار کو دوام بخشنے کیلئے قانون سازی کرنے اور کرانےوالے حکمران وردی والے صدر مشرف کو بھول گئے۔اپنی چال چلی جنہوں نے ساتھ دیا وہ سیاستدان کہاں اور کیا ہیں ۔ ضیا اور میاں صاحب نے اداروں کو استعمال کر کے کیا پیپلز پارٹی کو ختم کر لیا ۔ جو اب آپ انہی اداروں کو وہی چال چلا کر کوئی نئی تاریخ رقم کر لو گے ۔جھوٹ فریب جعل سازی سے تاریخ رقم نہیں ہوتی عبرت کیلئے تاریخ دہرائی ضرور جاتی ہے ۔ یزید نے حصول اقتدار کیلئے اختیار کا اندھا دھند استعمال کر کے خانوادہ رسول کو مٹا ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔ اورذلالت جبر و ستم کی انمٹ تاریخ لکھ ڈالی ۔ زندگی وہی ہے اور زندگی اسکی ہے جس نے اللہ کو مان کر اللہ کی مانی ۔اللہ کی مخلوق پر اختیار ملنے کے بعد وہ خدا کے بندے بننے ۔ بندوں کا خدا بننے سے گریز کیا ۔ سیاستدان غلطیوں پر غلطیاں کر رہے ہیں اور اس اثر سے معاشرہ غلطاں ہوا ہے ۔ سیاستدانوں کو ماننا ہو گا کہ وہ غلط ہیں ان سے ماضی میں بھی غلطیاں ہوئی ہیں ۔خدا کے لئے ملک قوم کیلئے سوچیں ۔ سموگ کنٹرول کرنے کیلئے اگر ڈی جی انوائرمنٹ کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں تو انہیں اس عہدہ پر بیٹھنے کا استحقاق نہیں ۔ یہ کیا حل ہے کہ تعلیمی ادارے بند بھٹہ انڈسٹری کا خاتمہ صنعت بند ٹرانسپورٹ بند ۔ بہتر حل تھا عوام کا سانس بند کرنے کا حکم صادر فرما دیتے نہ ہوتا بانس نہ بجتی بانسری ۔ اس سے کوئی فرق نہ پڑا تو پھر ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے یا حکمران کا ۔ ہمارے سیاستدان بوجھ ہیں ملک معاشرہ پر ۔ کون بوجھ ہے فوج یا سیاستدان ۔ آپکا بوجھ اسٹیبلشمنٹ کیوں اٹھائے ؟ بلکہ کوئی بھی کسی کا بوجھ کیوں اٹھائے ۔ وہ لڑتے ہیں مرتے ہیں پھروہ بوجھ کیوںہیں،صرف اس لیے کہ تنخواہ لیتے ہیں تو کیا سیاستدان کا گزارا جب تنخواہ پر نہیں ہوا تو اس نے نہیں بڑھائی تھی ۔ کیا سائیکل پر جانے کا کہہ کر ہیلی کاپٹر سے نیچے پاو¿ں نہیں رکھا وہ بوجھ کیوں نہیں ۔ سیاستدان بوجھ کیوں نہیں جو لٹاتے ہیں لوٹتے ہیں عوام کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے جرائم کو مٹانے اور اس مدد کرنے والوں کیلئے قانون سازی کرتے ہیں ۔ اداروں کو عوام کو استعمال کرتے ہیں ۔ جیلوں میں جرم کر کے جاتے ہیں استحقاق کے نام پر مراعات لیتے ہیں ۔ پاکستان کے ماتھے پرجمہوریت کے نام پر جھومر اور مسیحا بن کر راج بھی کرتے ہیں اور جوفوجی ہم وطنوں کیلئے مرتے ہیں اپنی جوانی طاقت نثار کرتے ہیں حفاظت کرتے ہیں وہ مجرم لالچی اور بوجھ ہیں ۔مسیحا ہیں جن کو نیب کے پنجہ سے چھڑا کر تخت نشین کیا گیا ۔جنکے محل نیب ثابت نہ کر سکا کہ وہ کیسے بنے ۔ اس جج جرنیل سے پوچھو جو ریٹائر ہوتے ہی بیرون ملک کیوں بھاگے ۔ اس ملک نے پالا عزت دولت عہدہ دیا ۔جب وہ عزت سے رہنے کاروبار کرنے کے قابل نہیں تو پنشن مراعات کس لئے یہ بوجھ قوم پر کیوں ؟