کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کے دنوں میں ننھے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے اوزار تھامے پھول جیسے معصوم بچے جب حالات سے مجبور ہوکر کام کرنے کےلئے نکل کھڑے ہوں تویقینا اس معاشرے کیلئے ایک المیہ وجود پارہاہوتاہے۔ بچوں سے مشقت خوشحالی و ترقی کے دعویدار معاشرے کے چہرے پر بدنماءداغ اور قوم کی اخلاقی اقدار کے زوال کی علامت ہوتا ہے ۔، یہاں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیںاور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔ان میں سے تین چوتھائی سخت مشقت والے کام، مثلاً کانوں میں کام، کیمیکلز کے ساتھ کام اور خطرناک مشینری کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔ جبکہ بچوں سے جبری مشقت کو ہمارے ہاں معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا ، جابجا معصوم پھول جیسے بچے بوٹ پالش کے کام سے لیکر ہوٹلوں،چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں،چھوٹی فیکٹریوں ، موٹر گاڑیوں ، خشت بھٹوں،سی این جی اور پٹرول پمپوں سمیت بہت سی جگہوں پر مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دن میں کتنے ہی بچے حالات کی چکی میں پس جاتے ہیں، مگر کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہوتاجبکہ بالغوں کے مقابلے میں ان معصوم بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے ، اگر ایک کام کا معاوضہ ایک بالغ کو ایک سو روپے دیا جاتا ہے تو اسی کام کے ایک بچے کو صرف 33 روپے ملتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کا مطلب وہ کام ہیں جن سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں، عزت ووقار ، خوشحال طرز زندگی سے محروم ہوجائیں جوکہ ان کی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما اور تعلیم کےلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس دن سرکاری و سماجی تنظیموں کی طرف سے مختلف تقریبات کااہتمام کیاجاتا ہے تا کہ محنت کش بچوں کے مسائل کو زمہ داران تک موثر طریقے سے پہنچایا جا سکے اور بچوں سے جبری مشقت کے مسئلے کا سدباب کیا جا سکے ۔ پاکستان میں جہاں غربت ،بے روزگاری، مہنگائی نے غریب بچوں کو اسکولوں سے دور کر دیا ہے کہ ان کےلئے تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے، وہاں پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے تعلیم کو اس قدر مہنگا کر دیا کہ اوسط درجے کی آمدن والے لوگ بھی اپنی اولادوں کو معیاری تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں غریب مفلوک الحال خاندان اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں یا تعلیم کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کریں ، یہی وجہ ہے کہ غریب بچے ہر طرح کی قابلیت کے باوجود پیچھے رہ جاتے ہیں، اور ان کے والدین وسائل کی کمی کے سبب ان کو تعلیم نہیں دلوا پاتے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ چائلڈ لیبر قوانین تو بنے ہیں لیکن آج تک کسی کو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے سزا نہیں سنائی گئی اور عملاً صورت حال سب کے سامنے ہے ۔ امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرنےوالے بچوں کے حالات کار سب سے برے ہیں جن پر شدید تشدد کے واقعات آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں،اس کے علاوہ بیشتر کاروباری مقامات اور ورکشاپش میں محنت کش بچوں پر معمولی معمولی بات پر پر تشدد واقعات معمول بن چکا ہے۔ والدین خود کمسن بچوں کو سڑکوں، بازاروں اور فیکٹریوں میں مزدوری کرنے کےلئے بھیج دیتے ہیں، جہاں حفظان صحت کے اصولوں سے آشنا نہ ہونے اور فیکٹریوں ، کارخانوں کے شور و دھوئیں، گندے پانی کے فضلات کی وجہ سے مزدوری کرنےوالے 70 فیصد سے زائد بچے ہپاٹائٹس اے، بی اور سی جیسے وائرس اور دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بچے کسی بھی قوم کا روشن مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں ، ان کی بہترین تربیت و نگہداشت پر جس قدر زیادہ توجہ دی جائے ، قوموں کی ترقی کے امکانات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں ۔ بلاشبہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے غریب خاندانوں کواپنے بچے محنت و مشقت پر لگانا ان کی مجبوری بن چکا ہے لیکن یہ بھی جائز نہیں ایسے موقع پر معاشرہ کوئی کردار ہی ادا نہ کرے ، ہمارا مذہب تو اپنے ہمسا ئیوں چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بھی تعلیم دیتا ہے اور رشتے داروں کے حقوق تو اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اگر ہمسائیوں، رشتے داروں یا جاننے والوں میں کوئی بے سہارا بچہ یا خاندان ہے تو اسکی کفالت کرنا صاحب حیثیت لوگوں خصوصاً رشتے داروں اور ہمسائیوں کا فرض ہے تاریخ اسلام ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔