ایک گلہ ماضی کے مشہور اداکار، گلوکار اور ہدایت کار رنگیلا سے کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ،اگر اداکار رنگیلا اداکاری اور گلوکاری کے شوقین نوجوان نواز شریف کو ایک موقع دے دیتے ،تو پاکستان بڑی آنت کی سیاست سے بچ سکتا تھا ۔اداکار رنگیلا نے نواز شریف کی پیہم خدمات کے باوجود اپنے پیشے سے وفا نبھائی اور صاف کہہ دیا کہ اس لڑکے میں اداکاری اور گلوکاری کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔یہاں تھوڑی دیر رک کر ذرا سوچیئے کہ ایک ٹوٹے ہوئے دل کی کیفیت کیا رہی ہو گی۔ یقینا کچھ عرصہ تنہائی میں غمگین گانے گائے ہوں گے، کچھ سنے بھی ہو گے ،پھر ان کے والد محترم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر جنرل جیلانی کے دست حق پرست میں دے دیا ،وہ دن اور آج کا دن،نواز شریف وزیر اعلی پنجاب بنے، ان لوگوں نے ڈکٹیٹر ضیا الحق کی باقیات کو سمیٹ کر ن لیگ نام کی سیاسی جماعت بھی بنا لی۔نواز شریف تین بار وزیراعظم بھی رہے ،اب ان کے برادر خورد وزیراعظم بنے ہوئے ہیں۔ اس ساری جدوجہد اور تگ و تاز میں مال و زر کے انبار بھی لگائے گئے اور بیرون ملک ذخیرہ بھی ہوئے ،پر وہ جو فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
تو جو کسک گانے اور فنکاری کی دل میں رہ گئی تھی ،وہ بے کل و بے چین رکھتی رہی۔دونوں بھائی نجی محفلوں میں ، پرائیویٹ فون کالوں میں گانے گا کر شوق پورا کرتے رہتے ہیں۔برادر خورد تو پبلک میں بھی اکیلے نہ جانا،ہمیں چھوڑ کر تم گا کر سنا چکے ہیں۔پھر ان کے چھوٹے صاحبزادے حمزہ بھی کثرت سے گیت گاتے رہتے ہیں۔ بقول ستم ظریف اس خانوادے کے دو ہی شوق ہیں ، گانا اور کھانا۔یہ ہمہ وقت اپنے باورچی ساتھ رکھتے ہیں، اسلام آباد میں لہور کے کھانے بذریعہ ہوائی جہاز منگوانے کا فخر بھی میاں برادران کو حاصل ہے۔ باخبر ذرایع کے مطابق ان کا ناشتہ دوپہر کے کھانے تک جاری رہتا ہے ۔اور دوپہر کا کھانا شام کی چائے سے رات کے خشکے تک ۔یوں انہوں نے اپنی چھوٹی بڑی آنتوں کو مصروف رکھا ہوا ہے۔ پہلے ان کا آئیڈیل انڈونیشیا کے سہارتو رہے ، وہ سہارتو کے نمونے پر چاہتے تھے کہ اس کی طرح یہ پاکستان میں بھی کم از کم بیس سال تک مسلسل اقتدار میں رہیں، یاد رہے کہ سہارتو انڈونیشیا کے فوجی راہنما اور دوسرے صدر تھے۔وہ 1967 سے لے 1998 تک انڈونیشیا کے صدر رہے تھے ۔سہارتو کا طویل عرصہ اقتدار میں رہنا نواز شریف کو متاثر کرتا تھا ۔ جس طرح سہارتو کے خاندان نے ملکی معیشت کے تمام اہم مراکز کو خود اپنے ہی خاندان کے زیر تسلط دے رکھا تھا ،اسی ماڈل پر شریف خاندان پاکستانی معیشت کے کلیدی مراکز کو اپنے خانوادے کی تحویل میں رکھنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔انہوں نے اپنی روز افزوں خواہشات میں وہ کچھ بھی کر گزرنے کی کوشش کی ،جو ان کے بس سے باہر تھی ۔تین بار حکومت میں آئے ،تینوں بارنکالے گئے ۔نواز شریف چونکہ لندن ہیں ،اس لیے بندوبست کے تحت برادر خورد شہباز شریف وزیر اعظم کا کردار نبھا رہے ہیں ۔نواز شریف کا آئیڈیل اگر بیس سال تک اقتدار میں رہنے والا سہارتو تھا ،تو چھوٹے میاں شہباز شریف کے آئیڈیل ترکیہ کے بیس سال سے متجاوز صدر چلے آ رہے طیب اردوغان ہیں، جو حال ہی میں ایک بار پھر ترکیہ میں الیکشن جیت کر صدر منتخب ہوئے ہیں ۔ویسے میں جمہوریت کے اس ڈیزائن پر بہت حیران ہوں جس میں ایک ہی شخص بیس سال سے متجاوز عرصے تک مسلسل حکمران رہ سکتا ہے ؟ یہ تو نری ملوکیت ہوئی۔جہاں پانچ سال بعد صدر یا وزیراعظم تبدیل نہ ہو ،وہاں کے آئین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے لیکن طویل عرصہ حکمران رہنے کے آرزومند اپنے ملکی آئین کواپنی منشا کے مطابق تبدیل کرتے رہتے ہیں۔آج کل شہباز شریف کو ترکیہ کے صدر سے محبت کا دورہ پڑا ہوا ہے وہ ان کی حلف برداری کی تقریب میں ایک مہمان کے طور مدعو کیے گئے ۔ وہ اپنے ساتھ آم کی چند پیٹیاں اور مریم اورنگ زیب کو لے کر ترکیہ پہنچ گئے ۔شہباز شریف کو سفارتی آداب کے برعکس جسمانی طور پر چھو چھو کر بات کرنے کی عادت ہے ۔اس کا آغاز وہ ہاتھ ملانے سے کرتے ہیں، ایک ہاتھ ملاتے ہیں ، دوسرے ہاتھ سے مقابل کی کلائی پکڑ لیتے ہیں۔اس خانوادے نے اس طریقے سے ہاتھ ملانے کی عادت جنرل ضیا الحق سے مستعار لی ہے ۔ماہرین نفسیات کے نزدیک اس طرح مصافحہ کرنے والے مخلص نہیں ہوتے ، بلکہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔میں اپنی وزرات خارجہ کے اعلی افسران کے تساہل پر حیران ہوں جو اپنے وزیراعظم کو غیر ملکی مہمانوں سے ملاقات کے آداب نہیں بتاتے یا سکھاتے۔وہ زیرلب طنزیہ مسکراہٹ ضرور بکھیرتے ہوں گے ۔ اچھا اس موقع پر ایک لطیفہ بھی ہوا شہباز شریف ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور ان کی محترم اہلیہ ترک خاتون اول امینہ ایردوان کو کسی طریقے سے بتانا چاہتے تھے کہ وہ ان کے لیے تازہ پاکستانی آموں کا تحفہ لے کر آئے ہیں ،دراصل شہباز شریف ان کی تصدیق اور تاثرات چاہتے تھے ۔ لہٰذا وزیراعظم شہباز شریف نے ترکیہ کی خاتون اول کو مخاطب کر کے اپنی طرف سے ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ مادام ان میں آدھے آم برادر محترم ایردوان کیلئے ہیں اور آدھے آپ کیلئے ہیں۔ بات ہنسی میں اڑا دی گئی۔شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر کو یہ بھی جتا اور بتا دیا کہ پاکستانی عوام آپکی جیت سے بہت خوش ہیں۔