انسا ن کی جبلت میں شامل ہے کہ وہ ہر کام فائدے کے لئے کرتا ہے، وہ کھبی نقصان کیلئے کوئی کام نہیں کرتا ۔یہ اور بات ہے کہ بعض کاموںمیں فائدہ اور بعض میںنقصان ہوجاتا ہے۔بعض ڈیل ایسے ہوتے ہیں جس سے کم وقت کیلئے فائدہ ہوتا ہے اور بعض میںطویل عرصے کیلئے فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح بعض سودوں میں کم پرافٹ ملتاہے اور بعض میں زیادہ۔فطین اور ذہین لوگ بڑے پرافٹ کا سودا کرلیتے ہیں۔ضلع خوشاب کی کھبیلی فیملی کے افراد اور ضلع میانوالی کے لالہ مسعود نے بڑے پرافٹ کا سودا کرلیا ہے۔کیا آپ بھی بڑے پرافٹ کا سودا کرنا چاہتے ہیں؟کھبیکی فیملی امریکہ میںرہتی ہے، اس فیملی کے گھر میںایک پیاری سی بچی پیدا ہوئی اور اُس کا نام عفاف رکھا گیا مگر وہ کچھ عرصے کے بعد وفات پاگئی،انسان اس دنیا میں اتنے سال مہینے، دن ، ہفتے، گھنٹے ،منٹ اور سکینڈ گذارتا ہے ،جتنے پروردگار عالم نے عطا کیے ہوتے ہیں، اس سے زیادہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا ہے،کسی کو زیادہ اور کسی کو کم زیست دیتا ہے،خالق ہی سب کچھ اور بہتر جانتا ہے، انسان اس حکمت کو نہیں جانتا ہے۔اولاد بہت ہی پیاری نعمت ہے،ان میں سے کوئی بچہ یا بچی وفات پاجائے تو مدتوں ان کی یادیں رہتی ہیں۔ بچے پھول ہوتے ہیں،ان کی خوشبو سے آنگن مہکتے رہتے ہیں،جس گھر میں بچے ہوتے ہیں،وہاں مسکراہٹوں کی بہار ہوتی ہے۔میرے خیال میں جس گھر میں بزرگ اور بچے ہوں،وہ گلشن کی مانند ہوتا ہے،جس میں سایہ دار اور پھل دار پیڑ ہوتے ہیں اور خوشبودار پھول بھی ہوتے ہیں۔ کھبیکی فیملی سے عفاف الودع ہوئی تو وہ افسردہ ہوئے اور یہ فطری بات ہے۔اس کے بعداس فیملی نے ایک بہت اچھا فیصلہ کیا بلکہ بہت منافع بخش سودا کیا۔کھبیکی فیملی کے سپوتوں نے ضلع خوشاب تحصیل نو شہرہ کے گائوں کفری میںعفاف ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ،اس کے بعدوہ ڈیم سائیٹ پر آئے اور ڈیم کا افتتاح کیا۔اس علاقے میں پانی کی کمیابی ہے کیونکہ پانی زندگی ہے، ہر چیز کے لئے پانی ناگزیر ہے، انسان و حیوان ، چرندو پرند اورشجر وحجرسب کے لئے پانی حیات ہے۔اس ڈیم سے سب مستفید ہونگے اور یہ صدقہ جاری ہے، کھبیکی فیملی کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ڈیم کا تذکرہ کیا تو کچھ اور ڈیموں کا ذکر بھی ہوجائے۔ضلع خوشاب کے پڑوس میںضلع میانوالی ہے، ضلع میانوالی کو 11نومبر 1901ء میں ضلع کا درجہ ملا تھا ۔ضلع میانوالی میںکالاباغ ایک قدیم شہر ہے،یہ شہر مثلث نما جگہ پر واقع ہے، ایک طرف سلاگر کا بلند و بالا پہاڑ ہے،دوسری طرف میدانی علاقہ ہے اور تیسری طرف آب و تاب سے بہتا ہوا دریائے سندھ ہے۔ کالاباغ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر قدرت نے ڈیم نما جگہ تخلیق کی ہے، وہاں پر بنا بنایا ڈیم ہے مگر وطن عزیز میںہر اہم منصوبے کو سیاست کے بھینٹ چڑھایا جاتا ہے ،اس ڈیم سے نہ صرف پنجاب بلکہ خیبر پختوان خواہ، سند ھ اور بلوچستان سمیت سب نے ہمیشہ کیلئے مستفید ہو نا ہے۔یہ ڈیم سیاست دانوں کی تنخواہوں اور مراعات کا معاملہ ہوتا تو پھر بلاچوں چراں سب اس پرمتفق ہوتے۔اس ڈیم کے معاملے میں ملت کی نظریں فلیڈ مارشل حافظ عاصم منیر پر مرکوز ہیں اور اُن سے امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ کالاباغ کے شمال میں تبی سر کا علاقہ ہے۔ تبی سر اور مضافات کے لوگ زیادہ تر افواج اور دیگر محکمہ جات میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں،اس کی بنیادی سبب یہ ہے کہ وہاں پر کوئی خاص کاروبار نہیں ہے، عصر حاضر میں کھیتی باڑی بہت کم ہوتی ہے کیونکہ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بارشیں کم ہوتی ہیں اور اس علاقے میں صنعتیں نہیں ہیں، گو کہ اس علاقے میںتیل، گیس، نمک، لوہا اور دیگرمعدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں ۔ دراصل وطن عزیز میں پلاننگ نام کی چیز نایاب ہے،پلاننگ ہوتی تو جہاںمعدنیات اور وسائل ہیں،اُسی علاقے میںفیکٹریاں اور کارخانے لگائے جاتے مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے، معدنیات کو500 یا 1000 کلومیٹر دور شہروں میں لے جائیں گے لیکن وہاں قریب ترین صنعتیں زون قائم نہیں کریں گے حالانکہ وہاں صنعتی زون قائم کرنے کے بے شمار فوائد ہیں،شہروں کی آبادی کنٹرول ہوجائے گی ،شہروں پربوجھ کم ہوجائے گا، شہروں میں آلودگی کم ہوجائے گی، سڑکوں پر رش کم ہوجائے گا اور شہروں میں جرائم کم ہونگے۔یہ سب کچھ پلاننگ کے ذریعے ممکن ہے۔ پلاننگ بہترین ہو تو چند افراد ہی علاقے کی تقدیر بدل سکتے ہیںاور سات سمندر پار سے بھی علاقے اور لوگوں کی پائیدار ترقی کیلئے کام کرسکتے ہیں،تبی سر کے ایک سپوت لالہ مسعود اپنی زیست کے شب و روز امریکہ میں بسر کررہا ہے ،خوب لگن سے کام کررہاہے،اپنی محنت کی کمائی سے علاقے پر خرچ کررہا ہے، وہ لوگوں کو نقد رقم نہیں دے رہا،نقد رقم تقسیم کریں گے تو لوگ مانگنے والے بن جائیں گے، مانگنے والے محتاج بن جاتے ہیں، پھر وہ لوگ کام نہیں کرتے ہیں، خالق دینے والے کو غنی جبکہ مانگنے والے محتاج کرتا،اس لئے اسلام نے بھیک سے منع کیا ہے۔لالہ مسعود نے تبی سر اور مصافات میںپلاننگ کے تحت زبردست کام کیے ہیں اور کررہے ہیں۔اس علاقے میں پانی کی کمی ہے تو لالہ مسعودنے اس علاقے میں کم وبیش 170 منی ڈیم تعمیر کروائے،اِس سے علاقے میں پانی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔دوسراکام یہ کیا ہے کہ ان ڈیموں میں مچھلی چھوڑ دیے ہیں،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مچھلیوں سے ڈیموں کا پانی صاف رہے گا اور مقامی لوگوں کی معیشت میںاضافہ ہوگا۔لالہ مسعود نے تیسرا کام یہ کیاکہ جابجا پودے لگائے ہیں،پودوں میں زیادہ تر زیتون اور پھل دار درخت لگائے ہیں، ان پودوں سے ماحول پر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے، جہاں زیادہ درخت ہوتے ہیں،وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں،وہاںپودوں سے آلودگی اور گرمی کم ہوجائے گی، زیتون کا تیل وافر مقدار میں پیدا ہوگا جس سے ملکی ضرورت پوری کرنے علاوہ برآمد کرکے زرمبادلہ کمایا جاسکے گا، مقامی لوگوں کے روزگار میں اضافہ ہوگا۔ لالہ مسعود چوتھا کام یہ کرتے ہیں کہ تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، تعلیمی اداروں میںبچوں اور بچیوں کیلئے ڈیسک اور کرسیاں اور دیگر اشیاء فراہم کرتا ہے۔وطن عزیز میں لاکھوں ارب پتی رہتے ہیں اور ملک سے باہر بھی، وہ ذاتی نمود و نمائش اور دیگر فضول چیزوں پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہونگے، وہ اپنی کمائی کے 10 فیصد لوگوں کی پائیدار ترقی پر خرچ کریں تویہ اُن کے والدین اور اُن کیلئے صدقہ جاریہ ہوگا، آخرت میں اُن کے درجات بلند ہونگے اور یہ بڑے پرافٹ کا سودا ہے۔