کالم

بھارتی اشارے پر افغانستان کی نئی مہم جوئی

یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغان سرحد سے ایک بار پھر پاکستان پر مسلح حملوں اور گولہ باری کے واقعات نے خطے میں امن و استحکام کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں چمن اور شمالی وزیرستان کے قریب افغان جانب سے فائرنگ اور راکٹ حملوں کے نتیجے میں پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں سمیت کئی شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بروقت اور فیصلہ کن عسکری کارروائی کرتے ہوئے دشمن کو واضح پیغام دیا کہ ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ افغانستان کی جانب سے ہونے والے حالیہ حملے ایسے موقع پر ہوئے جب افغان وزیرِ خارجہ بھارت کے دورے پر موجود تھے، جہاںپر افغان وزیرِ خارجہ اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات کو مشترکہ اعلامیوں کا حصہ بنایا گیا۔ مبصرین کے مطابق یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم سفارتی چال کا اشارہ ہے — جس کے ذریعے بھارت اور افغانستان کے مابین پاکستان مخالف بیانیے کو تقویت دی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں پاکستانی تجزیہ کار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کابل حکومت کے کچھ حلقے نئی دہلی کے اشاروں پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ بھارت اور افغانستان کی داخلی ناکامیوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ یہ تازہ افغان جارحیت اُس وقت سامنے آئی جب کابل حکومت پر عالمی سطح پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ مبصرین کے مطابق افغان طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان دشمن گروہوں کو tacit support فراہم کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور فوجی ردِعمل ناگزیر بن گیا۔سفارتی ماہرین کے بقول، پاکستان نے اس بار صرف جوابی کارروائی نہیں کی بلکہ عالمی برادری کو بھی آگاہ کیا کہ اگر افغانستان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو علاقائی امن کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔کسے معلوم نہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی قربانیاں دے چکا ہے، لہٰذا اب کسی دوسرے ملک کو اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق، حالیہ کارروائیوں میں افغان طالبان کے 22 اہم ٹھکانے تباہ کیے گئے ہیں اور 300سے زائد اہم کمانڈرزمارے گئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستانی جوابی حملے نہ صرف دفاعی نوعیت کے تھے بلکہ انہوں نے دشمن کو عملی طور پر باور کرایا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ یہ پیغام خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی واضح ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے، کمزوری نہیں دکھانا چاہتا۔اسی تناظر میں یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستانی دفترِ خارجہ نے افغان حکومت سے باضابطہ احتجاج کرتے ہوئے واضح کیا کہ *”دوستی اور برادرانہ تعلقات کا تقاضا باہمی احترام اور سرحدی خودمختاری کی پاسداری ہے، نہ کہ فائرنگ اور اشتعال انگیزی۔”* اسلام آباد نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو اپنے مشترکہ دشمن — دہشت گردی — کے خلاف مل کر اقدامات کرنے چاہئیں، نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف۔دفاعی مبصرین کے مطابق، پاکستان کی حالیہ پالیسی ”احتیاط مگر عزم” کی عکاس ہے۔ یعنی پاکستان تنازع کو بڑھانا نہیں چاہتا، لیکن اگر افغان جانب سے دوبارہ جارحیت ہوئی تو جواب پہلے سے زیادہ سخت اور جامع ہوگا۔ پاکستان نے بارہا یہ باور کرایا ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کے ساتھ برادرانہ تعلقات چاہتا ہے مگر دہشت گردوں کے لیے کسی بھی قسم کی نرمی نہیں دکھائی جائے گی۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان نے عالمی سطح پر بھی اپنے مؤقف کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا ہے۔ اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور علاقائی فورمز پر پاکستان نے شواہد پیش کیے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) اور دیگر شدت پسند گروہ مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ سفارتی ماہرین کے بقول اگر کابل حکومت نے ان گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدام نہ کیے تو افغانستان بین الاقوامی سطح پر مزید تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔اسی تناظر میں مبصرین تجویز دیتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحدوں پر مربوط سکیورٹی پالیسی اپنانا ہوگی، جس میں جدید نگرانی کے نظام، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور مقامی قبائلی برادریوں کی شمولیت کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اعتماد سازی کے اقدامات بڑھائے جائیں، تاکہ کسی تیسرے فریق کو کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کیا ہے — اس نے جارحیت کا مؤثر جواب بھی دیا اور امن کی پیشکش بھی برقرار رکھی۔ لیکن اگر افغانستان کی سرزمین سے دہشت گرد حملے بند نہ ہوئے تو پھر اسلام آباد کو اپنی دفاعی حکمتِ عملی کو مزید مضبوط اور جارحانہ بنانا پڑے گا۔یہ بات ہر ذی شعور کے لیے واضح ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، لیکن اپنی سالمیت اور خودمختاری پر کسی سمجھوتے کے لیے ہر گز تیار نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے