بھارت کیلئے یہ بات بڑی پریشانی کا باعث بن رہی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں اس کے شہری بھارتی شہریت ختم کر کے دوسرے ممالک میں بس رہے ہیں۔ 2011 سے اب تک 16 لاکھ سے زیادہ بھارتیوں نے اپنی ہندوستانی شہریت ترک کی ہے جس میں گزشتہ سال کے دو لاکھ 25 ہزار 620 افراد بھی شامل ہیں جو کہ اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ ہے، جب کہ 2020 میں سب سے کم 85,256 تھی۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے راجیہ سبھا میں اپنی شہریت ترک کرنے والے ہندوستانیوں کی تعدادبارے کہا کہ 2015 میں اپنی ہندوستانی شہریت ترک کرنے والے ہندوستانیوں کی تعداد 1,31,489 تھی، جب کہ 1,41,603 لوگوں نے 2016 میں اور 2017 میں 1,33,049 لوگوں نے بھارتی شہریت کو ترک کیا۔2018 میں یہ تعداد 1,34,561 تھی، جب کہ 2019 میں 1,44,017، 2020 میں 85,256 اور 2021 میں 1,63,370 نے اپنی شہریت ترک کی۔ 2011 میں 1,22,819 بھارتیوں نے شہریت ترک کی، جب کہ 2012 میں یہ تعداد 1,20,923، 2013 میں 1,31,405 اور 2014 میں 1,29,328 تھی۔جے شنکر کے مطابق بھارتی شہریوں کا ایک خاص حصہ ایچ ون بی اور ایل ون ویزوں پر امریکہ میں ہے۔ بھارتی حکومت مسلسل ہنر مند افراد بالخصوص آئی ٹی پروفیشنلز کی ہجرت کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اٹھاتی رہتی ہے۔بھارتیوں نے سب سے زیادہ امریکی شہریت حاصل کی، جو بھارتی تارکین وطن کا سب سے پسندیدہ ملک ہے۔گزشتہ برس مجموعی طور پر ایک لاکھ 63 ہزار لوگوں نے بھارتی شہریت ترک کی، ان میں سے 78 ہزار امریکی شہری بن گئے۔ دوسرے نمبر آسٹریلین شہریت 23,533 افراد نے، کینیڈین شہریت 21,597 باشندوں نے اور برطانوی شہریت 14,637 بھارتی باشندوں نے حاصل کی۔حکومت کا کہنا ہے کہ 2019 میں ایک لاکھ 44 ہزار سے زیادہ افراد نے بھارتی شہریت ترک کی ، تاہم 2020 میں اس رجحان میں کچھ کمی آئی لیکن گزشتہ برس اس رجحان میں اب تک کا سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔بھارت میں مختلف قوموں اور نسلوں کے لوگوں کا مسلسل آنا اور یہیں بس کر یہاں کی مٹی کا حصہ بن جانا ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ نئے آنے والوں میں مذہب کی بنیاد پر کسی کا استقبال کرنا اور کسی کو یہاں آنے سے روک دینا بھارتی تہذیب اور مزاج کا شیوہ کبھی نہیں رہا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ بھارت میں2019ءمیں شہریت ترمیمی بل کو قانون کا درجہ دیا گیا اور پڑوسی ملکوں، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندوﺅں، پارسیوں، عیسائیوں، سکھوں اور بودھوں کو یہاں پانچ سال گزار لینے کی شرط کے ساتھ بھارتی شہریت عطا کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ وزارت داخلہ کے حوالے سے یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون سے متاثر ہونے والے تمام لوگ شہریت حاصل کرنے کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ اس اطلاع میں دو باتیں قابل توجہ ہیں یعنی حال ہی میں بھارت آنے اور یہاں بس جانے والا شخص بھی شہریت کی درخواست دے سکتا ہے اور وہ بھی جس کی پیدائش بلکہ جس کے باپ دادا کی پیدائش بھی بھارت میں ہوئی ہو، بھارت سے جس کا تعلق ناقابل انکار ہو مگر جس نے دستاویزات نہ سنبھالی ہوں۔ ایک ملک میں پیدا ہونے اور کسی دوسرے ملک میں بس جانے اور اس ملک کی شہریت اختیار کرلینے والے تو تقریباً ہر ملک میں ہیں مگر پانچ پڑوسی ملکوں کے ایک خاص مذہب کے لوگوں کو بھارتی شہریت دے دینا بھارت میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ بھارت میں پیدا ہونے والا ایک مسلمان اگر کسی مسلم ملک میں شہریت حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ نہیں دی جاسکتی کہ قانون مخل ہوتا ہے۔ ایسا قانون صرف اسرائیل میں ہے کہ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہر شخص چاہے دنیا کے کسی ملک میں پیدا ہوا ہو اپنی شہریت کے اعتبار سے اسرائیلی بھی ہے۔ پانچ سال میں چھ لاکھ کے قریب بھارتیوں نے بھارتی شہریت چھوڑ دی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور انہوں نے بھارت سے اپنا رشتہ کیوں توڑ دیا ہے یہ ایک سوال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی شہریت ترک کرنے والوں میں اکثریت ان کی ہوگی جن کے مذہب اور بھارتی شہریت میں گہرا تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر جو زیادہ کمانے اور ترقی کے بہتر مواقع حاصل کرنے کیلئے اپنے وطن کو چھوڑنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون بنائے جانے سے پہلے ہی شہریت کا ایک خاص مفہوم متعین کیا جاچکا تھا۔