بھارت میں ماو¿ نواز باغیوں کی کئی دہائیوں پر محیط شورش کے نتیجے میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان باغیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بھارت کے وسائل سے مالا مال وسطی علاقوں میں پسماندہ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔سینیئر پولیس افسر سندرراج پی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”اب تک 31 باغیوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔“ ہلاک ہونے والے باغیوں کی لاشوں کے ساتھ بھاری اسلحہ بھی ملا ہے۔یہ تازہ ترین جھڑپیں ریاست چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع کے جنگلاتی علاقوں میں ہوئیں، جسے شورش کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ یہ ”نکسل فری انڈیا“ کی جانب ایک بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال بغاوت کی اس تحریک کو جڑ سے ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع چھتیس گڑھ میں گزشتہ سال سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاو¿ن میں تقریباً 287 باغی مارے گئے تھے۔ اس سال اب تک 80 سے زیادہ ماو¿ نواز باغی مارے جا چکے ہیں۔ماو¿ نواز مقامی باشندوں کے لیے زمین، ملازمتوں اور متعلقہ علاقے کے بے پناہ قدرتی وسائل میں سے حصہ مانگتے ہیں۔ انہوں نے بھارت کے مشرق اور جنوب میں بہت سی ایسی کمیونٹیز میں اپنی دھاک بٹھائی، جو عام دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ 2000 میں ان کی تحریک کافی حد تک طاقتور اور مقبول ہونے لگی۔اس کے بعد نئی دہلی نے “ریڈ کوریڈور” کے نام سے مشہور اس علاقے میں ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کو یقینی بنایا۔ مسلسل جاری اس تنازعے میں حکومتی سکیورٹی فورسز پر کئی خطرناک حملے کیے گئے۔ گزشتہ ماہ سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے کم از کم نو بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔چھتیس گڑھ کے بیجاپور میں رواں سال نکسلیوں کے خلاف 4 بڑے تصادم ہوئے ہیں۔ پہلے تصادم میں 5، دوسرے میں 12، تیسرے میں 8 اور چوتھے میں 31 نکسلیوں کو ہلاک کیا گیا۔یہ تصادم چھتیس گڑھ کے بیجاپور کے نیشنل پارک ایریا کمیٹی علاقے جنگل میں ڈی آر جی، ایس ٹی ایف اور بستر فائٹر کی مشترکہ ٹیم اور نکسلیوں کے درمیان ہوا۔ سیکورٹی فورسز نے جائے وقوع سے بڑی مقدار میں اے کے-47، ایس ایل آر، انساس رائفل، بی جی ایل لانچر سمیت دھماکہ خیز مواد برآمد کیے۔اگر گزشتہ 14 مہینوں کی بات کی جائے تو چھتیس گڑھ میں سیکورٹی فورسز نے 274 نکسلیوں کو تصادم میں ہلاک کیا ہے۔ وہیں اس دوران 1166 نکسلیوں کو گرفتار کیا گیا تو 969 نکسلیوں نے خود سپردگی کی۔ 2025 میں اب تک 81 نکسلیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جس میں سے 65 کا تعلق بستر ڈویڑن سے تھا جس میں بیجاپور سمیت 7 اضلاع شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق گزشتہ سال چھتیس گڑھ میں الگ الگ تصادم میں سیکورٹی فورسز نے 219 نکسلیوں کو مار گرایا تھا۔ماو¿ نوازی باغیوں کی مہم 1960 میں ایک چھوٹے سے چائے کے باغ سے اس وقت شروع ہوئی جب وہاں کام کرنے والے کسانوں نے احتجاج شروع کیا۔دلی میں واقع ’انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ مینجمینٹ‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی شمالی مشرقی ریاستوں میں ماو¿نواز باغی اپنی طاقت کو بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آسام کے کئی علاقوں میں علیحدہ ضلع کے مطالبے کےلئے تحریک جاری ہے۔ منی پور میں اقتصادی ناکہ بندی، اروناچل پردیش میں دبانگ گھاٹی اورجا پروجیکٹ کی بھی مخالفت جاری ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان تحریکوں کو نہ صرف عوام کی حمایت مل رہی ہے بلکہ ان میں ماو¿نواز باغی بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں تاکہ وہ اپنی پارٹی کا دائرہ مزید وسیع کرسکیں۔ہندوستان کے مشرقی ریاست جھاڑ کھنڈ میں حکام کا کہنا ہے کہ ریاست میں سرگرم ماو¿ نواز باغی پوست کی کاشت کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی کارروائیوں کے لیے خطیر رقم جمع کرسکیں۔پوست کے پودے افیون کی تیاری میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ حکام کے مطابق ریاست کے 22 اضلاع میں سے اٹھارہ میں ماو¿ نواز باغی سرگرم ہیں۔ ماو¿ باغیوں کا کہنا ہے کہ ملک کی پانچ ریاستوں میں وہ قبائیلوں کے حقوق کے لیے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ماو¿ نواز باغیوں نے پوست کی کاشت ہزاری باغ کے چترا اور کٹسکامسنڈی علاقوں میں شروع کی تھی جو اب بڑھ کر تین سو سے زائد دیہاتوں میں بیس ہزار ایکڑ تک پھیل چکی ہے۔ اکتوبر میں پوست کی فصل لاکھوں روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ماو¿ نواز باغی نہ صرف پوست کی کاشت کر رہے ہیں بلکہ کسانوں اور پوست کے تاجروں سے ٹیکس بھی لے رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق بھارت کی بیس ریاستوں کے چھ سو اضلاع میں سے 223 میں ماو¿نواز باغی سرگرم ہیں۔ایک اندازہ ہے کہ ماو¿نواز باغیوں کے بیس سے کم رہنما، تیس کمانڈر اور تقریباً 12000 کیڈرز ہیں۔ ماو¿نواز باغی جن علاقوں میں سرگرم ہیں ان میں بیشتر پچھڑے علاقے ہیں اور وہاں قبائلی آبادی ہے۔ اس کے علاوہ وہ بھی علاقے ہیں جن میں قدرتی وسائل کافی زیادہ ہیں اور حکومت ان علاقوں کو کارپوریٹ کمپنیوں کو بیچ رہی ہے۔ہندوستان میں ماو¿نواز تنظیم کی عسکری شاخ کے سربراہ کوٹیشور راو¿ عرف کشن جی نے دعویٰ کیا ہے کہ سن 2025 تک ان کی فورسز’عوامی جنگ میں مکمل فتح‘حاصل کر لیں گی۔ماو¿ نوازوں کو دلی پر قبضہ کرنے میں زیادہ سے زیادہ پندرہ برس لگیں گے۔ مسٹر راو¿ نے کہا’ ہماری فورسز بہترین تربیت یافتہ ہیں اور ہم مرکزی حکومت کی افواج کے کسی بھی حملے کو پسپا کرنے کےلئے تیار ہیں۔ ہماری تعداد بھی خاصی زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔