کالم

بھارتی قیادت کے اشتعال انگیز بیانات

کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ نے بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت کے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ بیانات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان بیانات سے نہ صرف جنوبی ایشیابلکہ عالمی امن و سلامتی کوسنگین خطرہ لاحق ہے ۔ حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے سیکرٹری اطلاعات مشتاق احمد بٹ سمیت کشمیری حریت رہنمائوں نے ایک بیان میں کہاہے کہ بھارتی قیادت کی جانب سے جنگی جنون پر مبنی بیانات اور جارحانہ طرزِ عمل ایک خطرناک روش کی عکاسی کرتے ہیں جو خطے کو غیر ضروری کشیدگی اور ممکنہ تصادم کی طرف دھکیل رہا ہے۔بھارتی قیادت کا رویہ نہ صرف بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے بلکہ ذمہ دار ریاست کے شایانِ شان بھی نہیں ۔ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جو ہمیشہ خطے میں امن و استحکام اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کی پاسداری کرتا رہا ہے، لیکن بھارت کی اشتعال انگیزی اور عسکری برتری کے جنون سے خطہ ایک ممکنہ بحران کی طرف بڑھ رہا ہے جس کے عالمی امن و معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے عالمی اداروں، بالخصوص اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پرزوردیاکہ وہ بھارتی قیادت کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کا فوری اور سنجیدہ نوٹس لیں۔ لداخ خطے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔ نہتے شہریوں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال، ماورائے عدالت قتل، بلاجواز گرفتاریاں اور اجتماعی سزائیں بھارت کے جمہوری دعوئوں کی نفی کرتے ہیں۔ بھارت اپنے داخلی سیاسی مسائل اور انتہا پسند ایجنڈے کو چھپانے کے لیے خطے میں کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ تاہم دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا کے امن کا انحصار کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پائیدار حل پر ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس عالمی برادری، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور بااثر ممالک سے اپیل کی کہ وہ بھارتی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور جارحانہ پالیسیوں کا فوری نوٹس لیں اور کشمیری عوام کو ان کا ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت دلوانے کیلئے اپنا موثر کردار ادا کریں۔ خطے میں امن و استحکام کو اسی صورت میں یقینی بنایا جا سکتا ہے جب بھارت اپنی روایتی ضد اور ہٹ دھرمی ترک کر کے مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کرے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دیرینہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان بھارت کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات چاہتا ہے لیکن امن ناانصافی، جبر اور حقوق کی پامالی کی بنیاد پر قائم نہیں ہو سکتا۔ بھارت غیرقانونی طورپر زیرقبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور 5اگست 2019کے بعد کئے گئے تمام یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات کو فورا واپس لے۔عاصم افتخار نے واضح کیا کہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے سے متعلق تاریخی اعلامیہ اس اصول پر قائم ہے کہ تمام اقوام کو آزادی، خودمختاری اور خود ارادیت کا ناقابلِ تنسیخ حق حاصل ہے لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے عوام آج بھی اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے دیرینہ حل طلب تنازعہ ہے اور اس کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں واضح ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کا سب سے بڑا عسکری زون بن چکا ہے جہاں دس لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، تشدد، اجتماعی سزائیں اور غیرقانونی گرفتاریاں روز کا معمول بن چکی ہیں جبکہ 2019سے پوری کشمیری قیادت کو قید کر دیا گیا ہے جن میں سے متعدد رہنما جیلوں ہی میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس جبر کے باوجود کشمیری عوام بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو مسترد کرتے ہیں اور آزادی کے لیے اپنی جرات مندانہ جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کیا جس کے تحت لاکھوں غیر کشمیریوں کو غیرقانونی ڈومیسائل جاری کیے گئے، کشمیریوں سے زمینیں ضبط کی جا رہی ہیں اور ریاست کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اس عمل کو انتہا پسند ہندوتوا نظریے کا حصہ قرار دیا، جو اقلیتوں کے خلاف مذہبی تعصب و استحصال کو فروغ دیتا ہے۔پاک بھارت کشیدگی جنوبی ایشیا کے امن، ترقی، اور خوشحالی کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے۔ دونوں ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ ماضی کی تلخیوں سے سیکھتے ہوئے باہمی احترام، انصاف اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی بنیاد پر تعلقات کو بہتر بنائیں۔ بصورت دیگر، یہ کشیدگی صرف تباہی اور معاشی نقصان کا باعث بنے گی۔برصغیر میں امن اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئے دور کا آغاز کریں، جس کی بنیاد انصاف، مساوات اور عوامی مفاد پر مبنی ہو۔جس میں سرفہرست دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے