مبصرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ حالیہ مون سون اجلاس میں بھارتی پارلیمنٹ کا ماحول خاصا کشیدہ نظر آیا، جہاں بی جے پی حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا رہا۔ مختلف قومی، دفاعی اور سفارتی معاملات پر اپوزیشن نے بھارتی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ۔بھارتی غیر قانونی قبضے والے کشمیر میں سیکیورٹی ناکامیاں،پاک فضائیہ کے ہاتھوں رافیل طیاروں کی تباہی، اور نام نہاد آپریشن مہادیو جیسے آپریشنز نے بی جے پی حکومت کے جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کر دیا ، جن کا تسلی بخش جواب دینے میں مودی حکومت بری طرح ناکام رہی۔یاد رہے کہ بی جے پی، جو برسوں سے جارحانہ بیانیے، عسکری کامیابیوں کے دعووں اور قوم پرستی کو اپنا سیاسی ہتھیار بنائے ہوئے ہے، اس بار واضح طور پر دفاعی پوزیشن میں دکھائی دی۔ بھارتی اپوزیشن کے سخت سوالات کے سامنے مودی حکومت کے بیشتر وزراء نے یا تو خاموشی اختیار کی یا گول مول جوابات دیے، جوبھارتی حکومت کی گھبراہٹ اور کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔اسی تناظر میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پہلگام میں بھارتی سیکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد، جس میں کئی اہلکار جاں بحق اور زخمی ہوئے، کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے بھارتی حکومت سے سخت سوالات کیے۔ انہوں نے کہا کہ حساس ترین علاقے میں سیکیورٹی کا مؤثر بندوبست کیوں نہ تھا؟ یہ سوال بی جے پی کے ان دعووں کے برعکس تھا جن میں وہ مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر پرامن اور قابو میں ظاہر کرتی رہی ہے۔ حملے نے نہ صرف بھارتی حکومت کے دفاعی بیانیے کو چیلنج کیا بلکہ اس کے طویل المدتی کشمیر پالیسی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔بھارتی پارلیمنٹ میں ایک اور سنسنی خیز موضوع رافیل طیاروں کی مبینہ تباہی تھی۔لوک سبھا میں رکن فرانسز جارج نے دعویٰ کیا کہ حکومت جان بوجھ کر ان واقعات کو عوام سے چھپا رہی ہے۔ سرکاری سطح پر ان حادثات کو ”unidentified incidents” قرار دے کر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی، مگر بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کے شواہد گردش کرتے رہے۔واضح رہے کہ اپوزیشن نے اس رویے کو بھارتی عوام کے ساتھ دھوکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے جس زور و شور سے آپریشن مہادیو اور سندور کا تذکرہ کیا، وہ بظاہر ایک سیاسی اسکرپٹ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ بی جے پی کے مطابق یہ آپریشنز دہشت گردی کے خلاف ”بڑی کامیابیاں” تھیں، لیکن اپوزیشن نے ان دعووں کو حقائق سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا اور جب ان آپریشنز کی تفصیلات پارلیمنٹ میں مانگی گئیں تو حکومتی بینچوں سے خاموشی چھا گئی۔حیرت انگیز واقعہ تب پیش آیا جب وزیر داخلہ امیت شاہ نے دعویٰ کیا کہ تین پاکستانی دہشت گرد مارے گئے، اور ثبوت کے طور پر چاکلیٹ کی تصویر پیش کی گئی۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) نے بھی یہی چاکلیٹ بھارتی عدالت میں بطور ثبوت پیش کی۔ اپوزیشن نے طنز کرتے ہوئے کہا:> ”یہ جنگ ہے یا کسی بالی ووڈ فلم کی شوٹنگ؟”سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ بیان بی جے پی کی غیر سنجیدہ حکمت عملی پر ایک کاری وار تھا، جس نے نہ صرف ایوان بلکہ عوامی سطح پر بھی بحث چھیڑ دی۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ حلقوں نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت مسلسل حساس معاملات پر غیر جانبدار تحقیقات سے گریز کر رہی ہے۔ چاہے پہلگام حملہ ہو یا رافیل کی تباہی، یا پھر آپریشن سندور کا غیر واضح نتیجہ — ہر معاملے میں بی جے پی کا رویہ مبہم اور گریز پر مبنی رہا۔ بین الاقوامی مبصرین بھی اب بھارت کی ان حرکات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر وہ سچائی سے کیوں خوفزدہ ہے؟ شفافیت کا فقدان، اعتماد کے بحران کو جنم دے رہا ہے۔ایسا پہلی بار ہوا کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہندـپاک کشیدگی پر ثالثی کی پیشکش کی گئی، تو بھارت نے حسبِ روایت اسے کھلے الفاظ میں رد کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ واضح رہے کہ یہ رویہ غیر معمولی تھا اور اس پر اپوزیشن نے بجا طور پر سوال اٹھایا کہ کیا بھارتی حکومت کسی عالمی دباؤ کے زیرِ اثر ہے؟ یا پھر یہ خاموشی بھارت کی خارجہ پالیسی میں کمزور پڑتی گرفت کا غماز ہے؟کانگریس سمیت دیگر جماعتوں نے بی جے پی پر واضح الفاظ میں الزام عائد کیا کہ اس کی کشمیر پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ شائد ہر حملے کے بعد میڈیا کو استعمال کر کے بیانیہ تو بدلا جا سکتا ہے، مگر زمینی حقائق کو نہیں۔اسی لئے اب بھارتی عوام اب سوشل میڈیا، آزاد ذرائع اور بھارتی اپوزیشن کے بیانیے سے بھی متاثر ہو رہے ہیں، اور یہی بی جے پی کے لیے اصل خطرہ ہے۔پہلگام سے رافیل اور پھر مہادیو تک، ہر واقعہ بی جے پی کے عسکری اور سفارتی بیانیے کو ایک ”ناک آؤٹ پنچ” دے رہا ہے۔سنجیدہ حلقوں نے اس ضمن میں کہا ہے کہ وہ بھارتی حکومت جو ماضی میں اپنے طاقتور میڈیا سیل، جارحانہ ترجمانوں اور قوم پرستی کے نعروں سے ہر سوال کو دبا دیتی تھی، آج خود اپنی عوام اور اپوزیشن کے سوالات تلے دبتی جا رہی ہے اور ایسے میں لگتا یہی ہے کہ بی جے پی کا زوال اب شروع ہو چکا ہے ۔