بھارت نے وسائل عوامی فلاح کے بجا ئے جنگی تیاریوں میں جھونک دئیے حکومت کی توجہ ہندوتوا نظریہ ، اقلیتوں کی نسل کشی پر مرکوز۔بھارتی وزیرِا عظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت سفارتی تنہائی، معاشی بحران اور سماجی انتشار کی گہرائیوں میں دھنستا جا رہا ہے۔ ناقص پالیسیوں، عوام دشمن فیصلوں اور جنگی جنون نے نہ صرف عوامی مسائل کو جنم دیا ہے بلکہ بھارت کی عالمی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، ہینلے پاسپورٹ انڈیکس میں بھارتی پاسپورٹ کی درجہ بندی میں نمایاں گراوٹ آئی ہے اور بھارت 85 ویں نمبر پر جا پہنچا ہے۔ مودی حکومت نے ملک کے قیمتی وسائل کو عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ہتھیاروں کی خریداری اور جنگی تیاریوںمیں جھونک دیاہے جس کا خمیازہ بھارتی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بھارت کے 70 فیصد سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر خراب، جعلی ادویات اور طبی سہولیات کے فقدان نے مریضوں کی جان خطرے میں ڈال دی۔بیروزگاری کی شرح 5.1 فیصدتک جا پہنچی جس نے نوجوان طبقے کو شدید مایوسی کا شکار کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی توجہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی نسل کشی، مذہبی منافرت کو ہوا دینے اورہندوتوا نظریے کو ریاستی پالیسی بنانے پر مرکوز ہے ، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خطے کے امن و استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔بھارت میں مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی ابتر صورتحال سے مودی حکومت کی "میک ان انڈیا” پالیسی کا پردہ فاش ہو گیاہے۔ 2014میں برسر اقتدار آنے کے بعد مودی سرکار نے اپنی "میک ان انڈیا” پالیسی میں بھارت کو صنعتی طورپرخود کفیل ملک بنانے کا وعدہ کیاتھا،تاہم ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھارت کی معیشت میں مینوفیکچرنگ کا حصہ14فیصد سے بھی کم ہے۔بھارت میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کے اعدادو شمار مودی کی ناقص معاشی حکمت عملی اور جھوٹے دعووئوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بھارت میں آج بھی موبائل فون اور سولر پینلز کی اسمبلنگ کیلئے پرزے اور خام مال چین سے درآمد کیے جاتے ہیں۔بھارتی فارماسیوٹیکل شعبے میں APIsکا 72 فیصد سے زائد حصہ اب بھی چین سے خریدا جاتا ہے، الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریز کیلئے بھارت کا چینی ٹیکنالوجی پر مکمل انحصار ہے ۔ مودی سرکار کی پروڈکشن لنکڈ انسینٹو اسکیم کا فائدہ صرف چند محدود شعبوں کو ہواہے جبکہ بنیادی صنعتی ڈھانچے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ مسلسل ذبوں حال ہے ، بھارتی معیشت کا چین پر انحصار ختم ہونے کی بجائے بھارت میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ ہواہے۔ بھارتی فرم ڈکسن کا HKC Co پر انحصار اور چینی الیکٹرانک فرم بی وائی ڈی کے ساتھ جاری مذاکرات، مودی کی معاشی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بھارتی مینوفیکچرنگ کے عداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ اصل پیداواری صلاحیت آج بھی چین کے پاس ہے ۔ بھارت مینوفیکچرنگ کے شعبے میں مکمل طورپر چین اورامریکہ پر انحصار کر رہاہے جس سے مودی حکومت کی معاشی ناکامیوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ مودی سرکار کے خود کفالت اور معاشی آزادی کے دعوے درحقیقت عوامی حمایت حاصل کرنے کے سیاسی حربے ہیں۔ چینی تعاون کے بغیر بھارت کی آئی ٹی اور الیکٹرونکس صنعت مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مودی سرکار کی خود انحصاری محض فریب کا ایک نعرہ ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ 6 ماہ میں بھارت سے 100 سے زائد چینی ماہرین واپس بلا لیے گئے ہیں اور چینی انجینئرز کی واپسی کے بعد بھارت کی آئی فون پروڈکشن لائن سست روی اور ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ فاکسکون کے چینی ماہرین کی واپسی نے بھارت میں ایپل کی پیداوار میں توسیع اور آمدنی میں اضافے کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ بھارتی حکومت کے دعووں کے برعکس مقامی اسمبلی لائنز چینی ماہرین کی عدم موجودگی میں خودکفالت ثابت کرنے میں ناکام دکھائی دی۔ بھارت میں ویلیو ایڈیشن یعنی ”خالص منافع”اب براہِ راست چینی تکنیکی معاونت سے منسلک ہو چکا ہے۔ فاکسکون کی بھارتی سبسڈری ”رائزنگ اسٹارز ہائی ٹیک” چینی ماہرین کے بغیر پیداواری اہداف حاصل کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔پریس ریڈر نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت میں 80 سے 90 ملین آئی فونز سالانہ تیار کرنے کا ہدف اب چینی ماہرین کے بغیر صرف ایک تخمینہ محسوس ہوتا ہے۔ چینی انجینئرز کی واپسی نے بھارت میں ایپل کی طویل مدتی سرمایہ کاری کے عمل کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔بھارت کی جانب سے 68 فیصد درآمدی ٹیرف عائد ہونے کے باوجود، وہ امریکہ سے تجارتی رعایتوں کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس دوہرے معیار پر امریکہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کو ممکنہ طور پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کی تنبیہ بھی جاری کر دی ہے ۔اس ساری صورتحال نے بھارت کو سفارتی و معاشی سطح پر ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ کی پاکستان سے بڑھتی قربت اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کی حمایت میں نرم رویے نے بھارت میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔بھارتی میڈیا اور سفارتی حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ اب اس خطے میں پاکستان کے ساتھ زیادہ تذویراتی مفاہمت چاہتا ہے، جس سے بھارت کو عالمی سطح پر مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

