کالم

بھارتی چال بری طرح ناکام رہی

نریندری مودی کے پاس یقینا اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی آئین کے آرٹیکل370اور آرٹیکل35 اے کے خاتمے سے مطلوبہ مقاصد کس حد تک حاصل ہوئے، زمینی حقائق تو ہیں کہ کشمیری پہلے بھی وادی پر بھارت کے غاضبانہ قبضہ کےخلاف تھے اور آج بھی آزادی کے حوالے سے ان کے دیرینہ مطالبہ میں رتی برابر کمی نہیں آئی، کشمیر کی تاریخ سے آگاہ حضرات اس حقیقت کا باخوبی ادارک رکھتے ہیں کہ مقبوضہ علاقے میں صورتحال تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی،تقسیم ہند سے لے کر اب تک نئی دہلی میں آنے جانےوالے حکومتوں نے انواع واقسام کی چالیں چلیں، ظلم وستم کے پہاڈ توڈے پر مگر اہل کشمیر کے جذبہ آزادی کو ہرگز کچلنے میں کامیاب نہ ہوسکے، بی جے پی سرکار کو 2008، 2010اور پھر 2016میں پیش آنے والے واقعات کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہے ،انتہاپسند مودی کو دراصل تاریخ سےسبق سیکھنا ہوگا کہ کب اور کیسے کشمیریوں نے خوف اور لالچ جیسے آزمودہ حربوں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا،سچ یہ ہے کہ کشمیریوں کا تحریک آزادی سے جذباتی تعلق ہے وہ باخوبی جانتے ہیں کہ ان کے دیرینہ مسائل آزادی سے کم قمیت پر حل نہیں ہوسکتے چنانچہ ہزاروں نہیں لاکھوں جانیں قربان کرنے کے باوصف جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی ، ایک نقطہ نظر ہے کہ بے جے پی سرکار نے 370اور 35اے کا خاتمہ کرکے دراصل بھارت نواز سیاست دانوں کو مضبوط کرنے کی چال چلی، مثلا آج فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے دہلی نواز سیاست دان بھرپور انداز میں احتجاج کرتے ہوئے بھارتی سرکار سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ کشمیری کی خصوصی حثیثت بحال کرے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیریوں کی جدوجہد محض کشمیر کو متنازعہ علاقے تسلیم کروانے کےلئے ہے یا اس سے کہیں بڑھ کر وہ اپنے علاقے کی مکمل آزادی چاہتے ہیں، تجزیہ نگاروں کے بعقول چانکیہ سیاست کے پیروکار نریندر مودی نے کمال ہوشیاری سے کشمیریوں کو آزادی سے کم مطالبہ کرنےوالے سیاست دانوں کے پچھے لگا دیا تاکہ بتدریج مکمل خود مختاری کی تحریک کو ماند کیا جاسکے مگر ایسا نہ ہوسکا، بھارت کے جن غیر جانبدار صحافیوں یا دانشوروں نے مقبوضہ وادی کا حال ہی میں دورہ کیا انھوں نے برملا تسلیم کیا کہ مقبوضہ علاقے میں بھارت کی پوزیشن مذید کمزور ہوئی ہے ، عام کشمیری یہ سمجھتا ہے کہ مودی سرکار نے دراصل اس کی کمر میں ایک بار پھر چھرا گھونپا ، بے جے پی کے کشمیریوں پر تازہ سیاسی حملے نے نئی دہلی اور کشمیر میں حائل خلیج کو مذید وسیع کردیا ہے ، بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے دل ودماغ جیتنے کی نام نہاد مہم بری طرح ناکام ہوگی ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مودی سرکار نے ایک بار پھر کشمیریوں پر مہاراجہ کا دور مسلط کردیا ہے ، 70سال قبل جس طرح کشمیر میں غیر کشمیریوں کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی آج بھی وہی صورتحال ہے ، مودی سرکار نے دھونس دھاندلی اور خوف کی فضا وادی پر مسلط کررکھی ہے ،بھارتی خفیہ اداروں کو کھلی چھوٹ دے دی گی کہ وہ جب چاہیں کسی بھی بے گناہ کشمیری کے خلاف کوئی بھی برترین کاروائی کرڈالیں ، مقامی آبادی کو انتظامیہ میں خاطر خواہ حصہ نہ دینے سے اہل کشمیر میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے ۔مودی سرکار میں سوچنے سمجھنے والے حلقے اپنی کشمیری پالیسی کے ناکام ہونے سے باخوبی واقف ہیں مگر بظاہر ان میں سے کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے پر آمادہ نہیں، پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ماضی کی طرح آج بھی کشمیریوں کی سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسلام آباد کی خواہش اور کوشش ہے کہ کشمیریوں کی تحریک بارے دنیا کو یہ احساس دلایا جائے کہ وادی میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں مسلسل جاری وساری ہیں، اقوام عالم کے باضمیراور باخبر افراد سے یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ کب اور کیسے مقبوضہ وادی میں انتہاپسند مودی سرکار نے اپنا قبضہ مضبوط کرنے کےلئے بدترین مظالم روا رکھے ،یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے استحصال پر کیونکر خاموش ہیں، دراصل ہمیں نہیں بھولنا چاہے کہ اقوام عالم کے معاشی مفادات ہی ان کے سیاسی مفادات پر بالادستی حاصل کیے ہوئے ہیں، امریکہ اور یوریی یونین باخوبی آگاہ ہیں کہ ایک بڑی آبادی والے ملک بھارت سے تجارت سمیت دیگر شعبوں میں دو طرفہ تعاون تب ہی بڑھا سکتا ہے جب وہ نئی دہلی سرکار کو خوش کرنے کی پالیسی پر آنکھیں بند کرکے عمل کریں ،ہمیں مغربی ملکوں کی بھارت نوازی کے پچھے چین دشمنی کے جذبے کو بھی نہیں بھولنا چاہے ، امریکہ سمیت مغربی ملکوں کی اکثریت چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی قد سے پریشان ہے ، وہ باخوبی جانتے ہیں کہ چین آئندہ چند سالوں میں امریکہ سے معاشی ہی نہیں سیاسی میدان میں آگے نکل جائے گا چنانچہ بھارت کی شکل میں بیجنگ کے پڑوس میں ایسا ملک میسر آگیا ہے جو ان کے چین مخالف منصوبوں کو کامیاب بنانے میں معاون بن سکتا ہے ، یقینا مغربی ملکوں سے کیا شکوہ کیا جائے اگر مسلم دنیا بھی بھرپور انداز میں کشمیریوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانے پر آمادہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی آج بھی کشمیری صرف اور صرف اپنے زور بازو پر جدوجہد آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے کےلئے کوشاں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے