کالم

بھارتی گجرات میں 400 سال پرانی مسجد کا انہدام

بھارتی ریاست گجرات کی ہائی کورٹ نے احمد آباد کے سرس پور علاقے میں واقع 400 سال پرانی مسجد کے ایک حصے کاانہدام روکنے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ احمد آباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کی جانب سے مسجد کی کمیٹی کو ترقیاتی منصوبے کے لیے مسجد کا ایک حصہ خالی کرنے کے لیے نوٹس جاری کرنے کے بعد آیا ہے۔ مسجد کے متولی نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسجد 1950 سے بمبئی پبلک ٹرسٹ ایکٹ کے تحت ایک رجسٹرڈ وقف جائیداد ہے اور مسلمانوں کے لیے گہری تاریخی، ثقافتی اور مذہبی اہمیت رکھتی ہے۔ میونسپل کارپوریشن سڑک کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے بہانے مسجد کا ایک حصہ گرانا چاہتی ہے۔ ہائیکورٹ کے ایک ڈویژن بنچ نے مسجد کمیٹی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کارپویشن کو انہدام کی اجازت دیدی۔قانونی ماہرین اور کمیونٹی رہنماؤں نے اس فیصلے کو مسلمانوں اور انکے مذہبی مقامات کے تعیں عدالتی بے حسی اور تعصب کا عکاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالتیں ہندو مندروں کے تحفظ کے لیے اکثر مداخلت کرتی ہیں جبکہ مساجد اور دیگر اسلامی ورثے کی تعمیر و ترقی کی آڑ میں مسماری کی راہ ہموار کرتی ہیں۔کیا ترقی کے نام پر ہماری صدیوں پرانی وراثت کو مٹانا صحیح ہے؟ گجرات ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے نے اس سوال کو پھر سے اٹھا دیا ہے۔ یہ فیصلہ احمد آباد کی 400 سال پرانی مانسا مسجد سے متعلق ہے جسے جزوی طور پر مسمار کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ گجرات ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے موقف کی حمایت کی ہے۔ یہ فیصلہ عوامی مفاد میں سڑک کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے حق میں آیا ہے۔ مسجد کے منتظمین کی جانب سے دائر کی گئی چار ہفتہ کی روک کی درخواست کو عدالت نے مسترد کر دیا۔ جسٹس مونا ایم بھٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ میونسپل کمشنر نے GPMC ایکٹ کے تحت خصوصی اختیارات استعمال کیے۔ اس لیے وقف ایکٹ کی دفعات یہاں لاگو نہیں ہوتیں۔ احمد آباد میونسپل کارپوریشن نے شہر کی ترقی کے لیے مسجد کے کچھ حصے کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ عدالت نے اس مطالبے کو قانونی طور پر درست قرار دیا۔ مانسا مسجد ٹرسٹ نے دلیل دی کہ یہ مسجد تقریباً 400 سال پرانی ہے اور اس کی خاص مذہبی و ثقافتی اہمیت ہے۔ یہ صدیوں سے کمیونٹی کیلئے عبادت کا مرکز رہی ہے۔ ٹرسٹ نے اس کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش بھی کروائی ہے۔ ٹرسٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہدام مذہبی آزادی کی آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے AMC پر جنوری 2025 میں دائر اعتراضات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ ریاستی حکومت نے اس منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹریفک کی بھیڑ کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے۔ امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ 76 برس کے دوران ہزاروں مساجد اور چرچ ہندو انتہا پسندی کا نشانہ بنے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے حملے کیے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1947ء سے اب تک 76 سال کے دوران 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد گرجا گھر اور دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہیں ہندو انتہا پسندوں کی نفرت اور تعصب کا نشانہ بن چکی ہیں۔ہندو انتہا پسند جماعت وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس بھارت میں حکومتی آشیر باد سے اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہیں۔ مودی سرکار میں حلال جہاد، گئو رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوؤں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں صدیوں پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور ہزاروں مسلمان ہندو انتہاپسندوں کے حملوں میں شہید ہوئے تھے۔ شاہی عیدگاہ مسجد، شمسی مسجد اور گیان واپی مسجد سمیت درجنوں عبادت گاہوں پر ہندو انتہا پسندوں کے قبضے کے دعوے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں نے 2017 میں مشہور زمانہ دنیا کے عجائب میں شامل تاج محل کے بھی شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ بھارتی فوج نے 1984 میں امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پرٹینکوں اور توپوں سمیت چڑھائی کردی تھی جس کے بعد سکھوں کے پرہونیوالے حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔کچھ عرصہ قبل بھارتی ریاست بہار میں شرپسند ہندوؤں نے علاقے کی مسجد پر اپنا بھگوا جھنڈا لہرایا اور مدرسہ ضیاء العلوم میں بھی توڑ پھوڑ کی اور آ گ لگا دی جس سے کشیدگی پیدا ہوگئی۔ علاقے میں انٹر نیٹ سروس معطل اور دفعہ 144نافذ کردی گئی ۔ متاثرہ شہروں میں پویس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ بہار کے اورنگ آباد، بھاگلپور کے بعد اب سمستی پور ضلع میں کشیدگی کے بعد پولیس کے دستے کثیر تعداد میں تعینات کردیئے گئے۔ سمستی پور میں رسوڑا شہر کے گدری بازار میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران جھڑپ میں ایس ایس پی سنتوش کمار اور انسپکٹربی این مہتہ سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے۔دہلی سے 37 کلو میٹر دور واقع فرید آباد میں گاؤں اٹالی میں ایک مسجد کی تعمیر جاری تھی جس کو ہندؤں (جن میں اکثریت جاٹ برادری کی تھی) نے پہلے مسجد کو نذر آتش کیا بعد ازاں مسلمانوں کی رہائشی آباد پر حملہ آور ہوئے۔دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اٹالی میں 5سال قبل مسجد اور مندر ایک ساتھ تعمیر کیے جا رہے تھے، مگر اراضی کے تنازع کے باعث مسجد کا تعمیراتی کام روک دیا گیا تھا رواں ماہ عدالت نے مسجد کی تعمیر کی اجازات دی تھی، یوں 5 سال بعد مسجد کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے