کالم

بھارت انسانی آزادی کیلئے بد ترین

عالمی ہیومن فریڈم انڈیکس نے رپورٹ میں بھارت کے نام نہاد سیکولر ازم کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا ۔ بھارت میں انسانی آزادی کی صورتحال اتنی بدترین ہو گئی کہ رپورٹ کے مطابق شخصی ومعاشی آزادی میں تنزلی کے بعدبھارت عالمی انڈیکس میں 111 ویں نمبرپرآگیا۔ سابقہ انڈیکس کے مقابلے میں بھارت میں انسانی آزادی 17 پوائنٹس تنزلی آئی۔ انسانی آزادی کے حوالے سے بھارت کو 6.43 پوائنٹس ملے۔ انسانی آزادی کے معاملے پر اوسط پوائنٹس 6.93 مقر ر ہیں۔انڈیکس پوائنٹس قانون کی عمل داری، مذہبی و عوام تحفظ، نظام قانون کی صورتحال دیکھ کردیے جاتے ہیں۔بھارت ہیومن انڈیکس ریٹنگ میں 6.43 پوائنٹس حا صل کر سکا۔ یوریج ہیومن فریڈم ریٹنگ 6.93 پوائنٹ ہے۔ ریٹنگ ایجنسی کیٹو انسٹیٹیوٹ نے کل 162 ممالک کو ریٹ کیا۔ ذاتی آزادی، یعنی پر سنل فریڈم انڈیکس میں بھارت کو 6.30 ریٹنگ پوائنٹ ملے۔ اکنامک فریڈم کے شعبہ میں بھارت کو 6.56 ریٹنگ پوائنٹ ملے۔ بھارت کو پاکستا ن (140) بنگلہ دیش (139) اور چین (129) سے پہلے ریٹ کیا گیا۔نیپال (92)، سری لنکا (94)، اور بھوٹان 108 ریٹنگ پوائنٹس کیساتھ بھارت سے آگے ہیں۔ ٹاپ ٹین میں ریٹنگ حاصل کرنیوالے ممالک میں نیوزی لینڈ، سوئٹزر لینڈ، ہانگ گانگ،ڈ نما رک، آسٹر یلیا، کینیڈا، آئرلینڈ، اسٹونیا، جرمنی اور سویڈن شامل ہیں۔ ریٹنگ میں نویں پوزیشن پر جرمنی اور سویڈن میں مقابلہ برابر رہا۔ جاپان ریٹنگ میں 11ویں اور برطانیہ اور امریکہ 17 ویں نمبر پر موجود ہیں۔شام ریٹنگ لسٹ میں بدترین ملک رہا۔ سوڈان، وینزویلا، یمن اور ایران اسی ترتیب سے بدترین ہیومن انڈیکس والے ملکوں میں شامل ہیں۔انڈیکس ذاتی اور معاشی شعبوں سمیت 17 اشاریوں کی بنیا د پر تشکیل دیا گیا۔ قانون کی حکمرانی، سکیورٹی، اور سیفٹی بھی انڈیکس کی ترتیب کے اشاریوں کی بنیاد تھے ۔ مذہب، لیگل سسٹم، حق جائیداد اور پیسہ تک رسائی بھی انڈیکس کیلئے زیر غور رہے۔بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، گرین پیس اور آکسفیم جیسے متعدد بین الاقوامی ادارے اپنے آپریشنز کو محدود یا پھر مکمل بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور تنازعات کو سلجھانے سے متعلق غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار ڈائیلاگ کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے عطیات دینے والوں سے متعلق آئے دن کی پوچھ تاچھ اور اب ان کے ذریعے دی جانے والی مالی امداد کو بینک اکاونٹ میں جمع ہونے سے روکنے پر ان کا اسٹاف مالی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار ہو گیا تھا۔ایمنسٹی کے مطابق اس کے اکاونٹ سیل کر دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ملازمین کو مشاہرہ ہی نہیں دے پا رہے تھے۔ اس عالمی تنظیم سے حکومتیں خائف تو ہو سکتی ہیں لیکن اس کی رپورٹیں، دستاویزات اور اعداد و شمار کی معتبریت پر آج تک کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا ہے۔ بھارت میں اس کی موجودگی ملک کے لیے ہی باعث تفخر تھی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے اپنی بساط لپیٹ کر اسٹاف کو خیر باد تو کر دیا ہے۔ مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ بھارت جیسا کثیر الجہتی ملک اور اس کا تکثیری معاشرہ زیادہ دیر تک ایمنسٹی جیسی تنظیم کے لیے اپنی سرحدیں بند نہیں رکھ سکتا۔ پہلے بھی اس قانون کو، جب وہ اتنا سخت بھی نہیں تھا۔ عالمی حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف کئی بار استعمال کیا گیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران اس کے عہدیداروں کو آئے دن پولیس اور ٹیکس افسران کے سامنے پیش ہونا پڑتا تھا۔ پچھلے ماہ ہی بھارت میں اس کے سابق سربراہ آکار پٹیل کو گجرات صوبہ کی پولیس نے گرفتار کیا۔ گو کہ ان کو بعد میں ضمانت مل گئی مگر یہ ایک ہلکا سا اشارہ ہے کہ جب ایک عالمی تنظیم کے عہدیدار کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آسکتا ہے تو قصبوں اور دیہات میں کام کرنے والے کارکنان کی کیا اوقات ہے؟ 2004ءمیں، جب کانگریس کی قیادت میں متحدہ ترقی پسند اتحادکی حکومت اقتدار میں آئی تو بطور وزیر اعظم من موہن سنگھ برسر اقتدار آئے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی کی قیادت میں ایک قومی صلاح کار کونسل کا قیام بھی عمل میں آیا۔ مسز گاندھی نے اس کونسل میں سول سوسائٹی کے چنیدہ اور معتبر اراکین کو ممبر بنایا تھا۔ یعنی پہلی بار حکومت اور سول سوسائٹی کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر ایک اشتراک کی گنجائش پیدا کی گئی۔ لیکن 2014ءکے بعد نہ صرف اس کونسل کو تحلیل کیا گیا بلکہ حکومتی ادارہ یعنی منصوبہ بندی کمیشن کی بھی بساط لپیٹی گئی۔ یہ کمیشن بھی کم و بیش حکومتی کام و کاج پر نظر رکھنے کا کام کرنے کے علاوہ سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔سول سوسائٹی کو نشانہ بنانے کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا کھل کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے کارکنان کے لیے آرام کرسی دانشور، لیوٹن دہلی یا خان مارکیٹ گینگ جیسے نام استعمال کیے جاتے ہیں۔ دہلی شہر کا وسط یعنی برطانوی آرکیٹیکٹ لارڈ لیوٹن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے وہاں رہنے والوں کو لیوٹنز کہتے ہیں۔ مگر اس کو منفی انداز میں سول سوسائٹی کے اراکین سے منسوب کیا گیا تاکہ یہ بتایا جائے کہ یہ افراد بس خان مارکیٹ کے کیفے خانوں تک ہی محدود ہیں اور ان کا ملک کے اصل مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ اس تاثر کو عام کرنے میں حکومت کا کردار کچھ کم نہیں ہے۔ سول سوسائٹی پر ایک اور کاری وار حال ہی میں اختتام پذیر پارلیمنٹ کے اجلاس میں کیا گیا، جب اپوزیشن کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر کسی بحث و مباحثہ کے بغیر ہی غیر ملکی فنڈنگ کے متعلق قانون فارن کنٹری بیوشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے