بھارت میں مودی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتوں کیساتھ ابتر سلوک کے خلاف دنیا بھر میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ امریکی ریاست شکاگو کے کیتھولک پادری سمیت 300 سے زائد مذہبی رہنماو¿ںنے امریکی محکمہ خارجہ کو خط لکھ کر ”بھارت کو خصوصی تشویش“کا حامل ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔خط پر دستخط کرنے والوں میں شکاگو کے کیتھولک بشپ جوئے ایلاپاتھ سمیت 300 سے زائد پادری، بشپ اور دیگر سرکردہ مذہبی رہنما شامل ہیں۔خط میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا گیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان پر ظلم و ستم کررہی ہے۔خط میں بتایا گیا کہ جو ہندو عیسائیت قبول کرتے ہیں انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، ان پر اکثر پر حملے کیے جاتے ہیں او ر انہیں جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ عالمی تنظیم اوپن ڈورز انٹرنیشنل کی عالمی واچ لسٹ میں بھارت اس وقت گیارہویں نمبر پر ہے۔ ملک کے ایک ارب 40 40 کروڑ افراد میں سے 72 فیصد ہندو ہیں، 15 فیصد مسلمان، 5 فیصد عیسائی اور 3.7 فیصد آبادی کی دیگر نسلوں و مذاہب کی نمائندگی کرتی ہیں۔تنظیم نے رواں برس اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے خواہاں ہندوتوا کے انتہاپسندوں نے جب سے ملک باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے عیسائی برادری اور دیگراقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں زوروں پر ہیں۔اوپن ڈورز نے کہا تھا کہ ہندو انتہا پسند بھارت کو اسلام اور عیسائیت سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر تشدد کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔اپنی 2024 کی فہرست میں اوپن ڈورز نے کہا تھا کہ ملک کو ایک ہندو ریاست بنانے کے خواہاں ہندوتوا کے انتہاپسندوں کی جانب سے باگ ڈور سنبھالے جانے کے بعد بھارت سے ہندوستان میں عیسائی برادریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور وہ سب ہمیں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔بی جے پی اور مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اقلیتوں کے خلاف مظالم بڑھے ہیں۔ وہ اپنے ملک کو اسلام اور عیسائیت سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر تشدد کا استعمال کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ عیسائیت قبول کرنے والے ہندو بھارت میں ظلم و ستم کا شکار ہیں اور اکثر پر حملے کیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار انہیں جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا ہوا ہے۔کیونکہ اقلیتوں پر مظالم میں ہندوستان سرفہرست ہے، جہاں مسلمان، سکھ، عیسائی اور نچلی ذات کے ہندو بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان میں 1964 سے 2022 تک تقریباً 20,000 سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا ہوا ہے۔بھارت میں 21 اپریل 2022 میں ریاست حیدرآباد میں مسلمانوں کے 50 ہزار گھروں کو مسمار کر دیا گیا، 2023 میں بھارت کی 23 ریاستوں میں عیسائیوں کےخلاف 400 تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔25 اگست کو ریاست اڑیسہ میں سینکڑوں عیسائیوں کو قتل کیا گیا جبکہ 600 دیہاتوں کو جلا ڈالا گیا، 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ فسادات شدت اختیار کر گئے جس میں لگ بھگ 17 ہزار سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔2012 میں دلت ہندوو¿ں کے خلاف 60 ہزار جرائم رپورٹ ہوئے، جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق اوسطاً ہر 10 منٹ میں ایک دلت کےخلاف تشدد کا واقعہ پیش آتا ہے۔بھارت کے نیشنل کرائم بیورو کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں نچلی ذات کے خلاف اڑھائی لاکھ سے زائد نفرت انگیز جرائم رپورٹ ہوئے۔امریکی ادارہ برائے مذہبی امور کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں پر حملے کئے جاتے ہیں، سربراہ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کے مطابق مودی کے دورمیں مذہبی آزادی شدید تنزلی کا شکار ہوئی ہے، 2020 سے امریکی کمیشن برائے مذہبی امور نے بھارت کو تشویشناک ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔بھارت میں اقلیتوں کے خلاف حملوں پر نظر رکھنے والی ”ہندو توا واچ“ نامی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ پہلی سہ ماہی میں بھارت کی 17ریاستوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی 250سے زائد نفرت انگیز ریلیاں نکالی گئیں جس میں سے 90فیصد ان ریاستوں میں نکالی گئیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مودی حکومت کی مسلمان اور اقلیت دشمنی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم بننے تک امریکہ نے مودی پر دہشت گردانہ سوچ کی وجہ سے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ سمیت عالمی برادری مودی حکومت پر اقلیتوں کے حوالے سے عالمی قوانین کی پاسداری کےلئے دباﺅ بڑھائے تاکہ بھارت میں اقلیتوں کے جان و مال کو محفوظ بنایا جا سکے۔