بھارت میں بھاتیہ جنتا پارٹی کے مسلسل 2014 سے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت کی شناخت جہاں سیکولر کے بجائے عملی طور پر انتہا پسندانہ ہندوتوا کا چرچا بڑھا ہے اور اقلیتوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے وہیں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو بد ترین نفرت کا شکار بننا پڑ رہا ہے۔ امریکہ میں قائم ایک تحقیقی گروپ کے مطابق بھارت میں سال 2023 کی دوسری ششماہی میں ابتدائی چھ ماہ کے مقابلے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی یعنی ہیٹ اسپیچ کے واقعات میں 63 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص گزشتہ تین ماہ کے دوران غزہ میں جاری جنگ نے ان واقعات میں ہونے والے اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے 668 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں سے 255 گزشتہ سال کے ابتدائی نصف میں پیش آئے تھے۔ تاہم 2023 کے آخری چھ ماہ میں نفرت انگزی کے ایسے واقعات کی تعداد 413 تھی۔ نفرت انگیزی کے واقعات میں سے 75 فی صد یا 498 واقعات ایسی ریاستوں میں ہوئے ہیں جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ مہاراشٹرا، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش ایسی ریاستیں ہیں جہاں سب سے زیادہ ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے اور اسرائیل کی جوابی کارروائی کے بعد 31 دسمبر تک کے عرصے میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے 41 واقعات پیش آئے جن میں اس جنگ کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ 2023 میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے نفرت انگیزی کے 20 فی صد واقعات اسی عرصے کے دوران پیش آئے ہیں۔تحقیقی گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے نفرتبھارت میں بھاتیہ جنتا پارٹی کے مسلسل 2014 سے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت کی شناخت جہاں سیکولر کے بجائے عملی طور پر انتہا پسندانہ ہندوتوا کا چرچا بڑھا ہے اور اقلیتوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے وہیں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو بد ترین نفرت کا شکار بننا پڑ رہا ہے۔ امریکہ میں قائم ایک تحقیقی گروپ کے مطابق بھارت میں سال 2023 کی دوسری ششماہی میں ابتدائی چھ ماہ کے مقابلے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی یعنی ہیٹ اسپیچ کے واقعات میں 63 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص گزشتہ تین ماہ کے دوران غزہ میں جاری جنگ نے ان واقعات میں ہونے والے اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے 668 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں سے 255 گزشتہ سال کے ابتدائی نصف میں پیش آئے تھے۔ تاہم 2023 کے آخری چھ ماہ میں نفرت انگزی کے ایسے واقعات کی تعداد 413 تھی۔ نفرت انگیزی کے واقعات میں سے 75 فی صد یا 498 واقعات ایسی ریاستوں میں ہوئے ہیں جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ مہاراشٹرا، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش ایسی ریاستیں ہیں جہاں سب سے زیادہ ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے اور اسرائیل کی جوابی کارروائی کے بعد 31 دسمبر تک کے عرصے میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے 41 واقعات پیش آئے جن میں اس جنگ کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ 2023 میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے نفرت انگیزی کے 20 فی صد واقعات اسی عرصے کے دوران پیش آئے ہیں۔تحقیقی گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے نفرت انگیزی کے واقعات کو ریکارڈ کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے کی گئی ’ہیٹ اسپیچ‘ کی تعریف کو پیمانہ بنایا ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق کسی بھی فرد یا گروہ کو نشانہ بنانے کے لیے مذہب، رنگ و نسل، قومیت یا صنف کی بنیاد پر متعصبانہ یا تفریق پر مبنی زبان کا استعمال کرنے کو ہیٹ اسپیچ یا نفرت انگیزی قرار دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 2019 میں بھات میں متعارف کرائے گئے شہریت قانون، تبدیلی مذہب کے قانون اور مسلم اکثریتی کشمیر کی خصوص حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات کو ’بنیادی طور پر امتیازی‘ قرار دیا تھا۔انسانی حقوق کے گروپس الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ 2014 میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو مشکلات اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیرِ اعظم مودی رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں مسلسل تیسری بار وزارتِ عظمی کے امیدوار ہیں۔مودی حکومت اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیاں تمام بھارتی شہریوں کو یکساں فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں۔حالیہ مہینوں میں ہندو سادھوو¿ں کے کئی پروگراموں میں ہندوو¿ں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی اور بعض مقررین کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کی کال دی گئی۔رواں ماہ کی دو تاریخ سے لے کر اب تک متعدد ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ ہندوو¿ں کا الزام ہے کہ ان کے مذہبی تہواروں کے موقع پر نکالے جانے والے جلوسوں پر مسلمانوں کے پتھراو¿ کی وجہ سے یہ واقعات ہوئے۔جب کہ مسلمانوں کا الزام ہے کہ ہندوو¿ں کے مذہبی جلوسوں کے دوران ہتھیاروں کی نمائش ہوتی ہے۔ جان بوجھ کر جلوس مسلم علاقوں سے گزارے جاتے ہیں اور مسجدوں کے باہر رک کر اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے جب کہ مساجد میں داخل ہونے اور وہاں زعفرانی پرچم لہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں رام نومی کے جلوس کے دوران تقریباً ایک درجن ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے اور مسجدوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کے واقعات پیش آئے۔اس کے علاوہ شدت پسند ہندوو¿ں کی جانب سے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ لاو¿ڈ اسپیکر سے اذان اور حلال گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک عدالتی حکم سے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔گزشتہ دنوں راجستھان کے کرولی، مدھیہ پردیش کے کھرگون اور دہلی کے جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔کھرگون میں مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر فساد کرنے کے الزام میں مسلمانوں کی کم از کم 50 دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کیا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ کارروائی ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کی گئی۔دہلی کے جہانگیر پوری میں پولیس پر الزام ہے کہ اس نے یک طرفہ طور پر مسلمانوں کی گرفتاریاں کی ہیں۔ پولیس اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ وہاں بھی تشدد کے بعد مبینہ ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم شروع ہوئی جس پر فی الحال سپریم کورٹ نے پابندی عائد کر دی ہے۔مبصرین کہتے ہیں کہ آر ایس ایس سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے کا وقت آ گیا ہے اور یہ ساری سرگرمیاں اسی مقصد سے کی جا رہی ہیں۔ تاہم حکومت کے بعض ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہے اور حکومت آئین کے تحت چل رہی ہے۔
انگیزی کے واقعات کو ریکارڈ کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے کی گئی ’ہیٹ اسپیچ‘ کی تعریف کو پیمانہ بنایا ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق کسی بھی فرد یا گروہ کو نشانہ بنانے کے لیے مذہب، رنگ و نسل، قومیت یا صنف کی بنیاد پر متعصبانہ یا تفریق پر مبنی زبان کا استعمال کرنے کو ہیٹ اسپیچ یا نفرت انگیزی قرار دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 2019 میں بھات میں متعارف کرائے گئے شہریت قانون، تبدیلی مذہب کے قانون اور مسلم اکثریتی کشمیر کی خصوص حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات کو ’بنیادی طور پر امتیازی‘ قرار دیا تھا۔انسانی حقوق کے گروپس الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ 2014 میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو مشکلات اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیرِ اعظم مودی رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں مسلسل تیسری بار وزارتِ عظمی کے امیدوار ہیں۔مودی حکومت اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیاں تمام بھارتی شہریوں کو یکساں فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں۔حالیہ مہینوں میں ہندو سادھوو¿ں کے کئی پروگراموں میں ہندوو¿ں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی اور بعض مقررین کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کی کال دی گئی۔رواں ماہ کی دو تاریخ سے لے کر اب تک متعدد ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ ہندوو¿ں کا الزام ہے کہ ان کے مذہبی تہواروں کے موقع پر نکالے جانے والے جلوسوں پر مسلمانوں کے پتھراو¿ کی وجہ سے یہ واقعات ہوئے۔جب کہ مسلمانوں کا الزام ہے کہ ہندوو¿ں کے مذہبی جلوسوں کے دوران ہتھیاروں کی نمائش ہوتی ہے۔ جان بوجھ کر جلوس مسلم علاقوں سے گزارے جاتے ہیں اور مسجدوں کے باہر رک کر اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے جب کہ مساجد میں داخل ہونے اور وہاں زعفرانی پرچم لہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں رام نومی کے جلوس کے دوران تقریباً ایک درجن ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے اور مسجدوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کے واقعات پیش آئے۔اس کے علاوہ شدت پسند ہندوو¿ں کی جانب سے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ لاو¿ڈ اسپیکر سے اذان اور حلال گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک عدالتی حکم سے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔گزشتہ دنوں راجستھان کے کرولی، مدھیہ پردیش کے کھرگون اور دہلی کے جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔کھرگون میں مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر فساد کرنے کے الزام میں مسلمانوں کی کم از کم 50 دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کیا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ کارروائی ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کی گئی۔دہلی کے جہانگیر پوری میں پولیس پر الزام ہے کہ اس نے یک طرفہ طور پر مسلمانوں کی گرفتاریاں کی ہیں۔ پولیس اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ وہاں بھی تشدد کے بعد مبینہ ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم شروع ہوئی جس پر فی الحال سپریم کورٹ نے پابندی عائد کر دی ہے۔مبصرین کہتے ہیں کہ آر ایس ایس سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے کا وقت آ گیا ہے اور یہ ساری سرگرمیاں اسی مقصد سے کی جا رہی ہیں۔ تاہم حکومت کے بعض ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہے اور حکومت آئین کے تحت چل رہی ہے۔
کالم
بھارت سیکولر جمہوریہ یا انتہا پسند ہندو ریاست
- by web desk
- جون 4, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 281 Views
- 9 مہینے ago