کالم

بھارت میں آزادی صحافت کی مخدوش صورتحال

riaz chu

آزادی صحافت کے معاملے میں بھارتی صورت حال روزبروز تشویش ناک ہوتی جا رہی ہے۔ آزادی صحافت کے عالمی انڈیکس میں بھارت کو دو درجے کا نقصان ہوا ہے۔بھارت اب 138 ویں مقام پر ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے کام کرنے والی ٹرول سینا صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔مودی دور میں پرتشدد پالیسیوں اور متاثرین کے احوال دنیا تک پہنچانے پر کئی اخبارات، میڈیا ہاو¿سز پر پابندی لگ چکی ہے۔ چند روز قبل بھارتی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے 15عہدیداروں کی ایک ٹیم نے بھارت میں بی بی سی کے دفاترمیں سروے آپریشن کیا۔ یہ کارروائیاں دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں کی گئیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے ملازمین کے موبائل فون ضبط کرتے ہوئے انہیں گھر جانے کے لیے کہا گیا۔ بی بی سی کے دہلی دفتر یں دوپہر کی شفٹ میں کام کرنے والے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چند ہفتے قبل گجرات فسادات کے تناظرمیں بنائی جانے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم پر بھارت میں تنازع کھڑا ہوگیا ۔ کانگریس کے گوروگگوئی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’جس وقت ہندوستان کے پاس G-20 ممالک کی صدارت ہے، وزیر اعظم مودی بے شرمی سے ہندوستان کو آمریت کی طرف لے جانے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بی بی سی پر چھاپے، اڈانی کو کلین چٹ، امیروں کےلئے ٹیکسوں میں کٹوتی، لوگوں کے گھروں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، عدم مساوات اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے‘۔پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے لکھا، ’بی بی سی دفتر پر چھاپوں کی وجوہات اور اثرات بالکل واضح ہیں۔بھارتی سچ بولنے والوں کا بے شرمی سے تعاقب کر رہی ہے۔ چاہے وہ حزب اختلاف کے رہنما ہوں، میڈیا ہوں، کارکن ہوں یا کوئی اور۔ سچائی کے لیے لڑنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے‘۔اس سے قبل 11 فروری کو بھارتی سپریم کورٹ نے وزیراعظم مودی پربنائی گئی بی بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی کی درخواست مسترد کی تھی۔ہندوانتہا تنظیم کی اس درخواست میں بی بی سی کی رپورٹنگ اوردستاویزی فلموں کو بھارت کیخلاف قرار دے کرمکمل پابندی کی استدعا کی گئی تھی تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے درخواست کو غلط فہمی اورمیرٹ کیخلاف قراردیتے ہوئے درخواست جمع کروانے والی تنظیم کے صدر کی سرزنش بھی کی تھیبھارت میں صحافت کو انتہائی مخدوش حالات کا سامنا ہے۔ متعدد صحافیوں کو قتل کیے جانے جیسے متعد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں 7صحافیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی صحافیوں کو پولیس، سیاستدانوں، افسر شاہی اور جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے ڈرانے دھمکانے کے واقعات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت میںصحافت کے حالات یہ ہیں کہ مقامی اخباروں میں چھوٹے چھوٹے قصبوں اور شہروں میں کم تنخواہوں پر کام کرنےوالے صحافی زیادہ خطرے میں رہ رہے ہیں۔ مقامی مافیا، جرائم پیشہ افراد، کرپٹ سیاستدانوں اور بدعنوان اہلکاروں سے انہیں ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔صرف چھوٹے اخبارات اور چھوٹے شہروں میں ہی نہیں بلکہ بڑے شہروں اور بڑے صحافتی گروپز کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو بھی خطرات کا سامنا رہتا ہے ۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے صحافیوں پر حملوں کے واقعات اب عوام کے سامنے آنے لگے ہیں ۔ بڑے اخباروں، ٹی وی چینلوں اور غیر جانبدار ویب سائٹس پر دباو¿ بہت بڑھ گیا ہے اور بیشتر مدیر اس دباو¿ کے آگے جھک گئے ہیں ۔ حکومت پر سنجیدہ تنقید اور اس کی کارکردگی کا غیرجانبدارانہ جائزہ مشکل ہو چکا ہے۔ مدیر اور مالکان کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہتے ۔ بھارت میں تقریباً سبھی صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں صحافیوں اور میڈیا پر بڑھتے ہوئے حملے سے ملک میں آزادانہ صحافت کو خطرہ پیدہ ہو گیا ہے۔ پورے ملک میں خوف کی فضا بن گئی ہے۔ صحافی اب فون پر بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا فون ٹیپ نہ کیا جارہا ہو۔صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم’انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس’ نے بھارت میں صحافتی آزادی کو دبانے کی کوششوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں صحافیوں اور میڈیا پر بڑھتے ہوئے حملے سے ملک میں آزادانہ صحافت کو خطرہ پیدہ ہو گیا ہے ۔ فیڈریشن نے بھارتی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ صحافیوں اور میڈیا کے تحفظ کےلئے ضروری قدم اٹھائے۔ صحافیوں کیخلاف ہونے والے تشدد اور جرائم کی فوری تفتیش کی جائے اور مرتکبین کو سزائیں دی جائیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ تنظیم کے ایشیا پیسیفک کے سربراہ ڈینئیل بسٹرڈکا کہنا ہے کہ بھارت میں صحافیوں کے خلاف پولیس نے جس نوعیت کا مخالفانہ ماحول بنا رکھا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ لہٰذا ہم حکام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صحافیوں کے خلاف پولیس تشدد کی تفتیش کرائے اور جو اس کے ذمے دار ہیں انہیں مناسب سزا دے۔ اس سے بھی اہم یہ کہ وزارت داخلہ پولیس کو یہ واضح ہدایت جاری کرے کہ پورے ملک میں صحافیوں کے تحفظ اور ان کے کام کا احترام کیا جائے۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ یعنی سی پی جے کے بھارتی نمائندے آیوش سونی نے بتایا کہ گذشتہ دس برس میں ملک میں 33 صحافی مارے گئے ہیں۔کسی جمہوری ملک میں ایک بھی صحافی کا مارا جانا انتہائی شرمناک ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے