بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے دعوئوں کے برعکس ”آزادی کی تحریکیں ” بھارت کیلئے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے دعوی کیا ہے کہ بھارت میں آزادی پسندی کی تحریکیں تقریبا ختم ہو چکی ہے اور مزاحمت اب کوئی خاطر خواہ حیثیت نہیں رکھتی۔ تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مزاحمتی تحریکیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور بڑی تعداد میں بھارتی فوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بھارتی تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد 1990کی دہائی سے جاری ہے۔ اسکے علاوہ کئی بھارتی ریاستوں میں بھی آزادی اور خودمختاری کی تحریکیں شدت اختیار کر رہی ہیں۔ 1988 سے 2019 کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں 56ہزار سے زائد مزاحمت کے واقعات پیش آئے۔ان واقعات کے باوجود، بھارت کی مزاحمت کاروں کے خلاف جنگ انسانی جانوں کے بھاری نقصان کے ساتھ جاری ہے۔گزشتہ 32 برسوں کے دوران اوسطا ہر چار مزاحمت کاروں کے بدلے بھارت نے ایک فوجی اور دو شہری کھوئے ہیں۔بھارت کو اس کی بھاری قیمت 14ہزار930شہریوں اور 6ہزار413فوجی اہلکاروں کی جانوں کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ بھارتی فوج کایہ دعویٰ حقیقت سے بعید ہے کہ اس دوران بھارت بھر میں 23ہزار386مزاحمت کاروں کو ہلاک کیا گیا حالانکہ ہلاک ہونے والوں میں بہت سے عام شہری بھی شامل تھے۔بھارتی فورسز عام شہریوں اور مزاحمت کاروں میں فرق نہیں کرتیں اور معمولی شبہ پر کسی بھی شہری کو نشانہ بنا دیتی ہیں۔ بھارتی فوج کا یہ طرز عمل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی باعث بن رہا ہے۔اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، پنجاب اور تری پورہ جیسی ریاستوں میں ہر سال مزاحمتی کارروائیوں کے دوران بھارتی فوجیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔6 مارچ 2000سے رواں سال 22 اپریل کے دوران، صرف مقبوضہ کشمیرمیں 12 ہزارسے زائدعسکری واقعات میں 4 ہزار 980بے گناہ جانوں کا ضیاع ہواجبکہ گزشتہ سال مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے نا جائز قبضے کیخلاف مزاحمت کے واقعات میں مجموعی طور پر5افسران سمیت 29بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ رواں سال مقبوضہ کشمیر ، ناگالینڈ اور منی پور میں بھارتی تسلط کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ کشمیر میں19بھارتی فوجی مجاہدین کے حملوں میں مارے گئے جبکہ 10مئی کو پاکستان کیساتھ معرکہ حق کے دوران 250بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت 67 علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بھارت میں 100سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ دراصل اپنی ان لا تعداد تنظیموں پر پردہ ڈالنے اور حقائق چھپانے کیلئے وہ پاکستان کیخلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے۔بھارت کے صرف ایک صوبے آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں۔ ان میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس ، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی سمیت بھارت میں بائیں بازو کی کئی انتہا پسند تنظیمیں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے جن انتہا پسند تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی ان میں پیپلز گوریلا آرمی، پیپلز وار گروپ نیکسلائٹس، تامل نیشنل ٹروپس، آصف رضا کمانڈو فورس رن ویرسینا ، ایل ٹی ٹی ای وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ حکومت کی جانب سے پابندیوں کے باوجود علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیاں انڈر گراؤنڈ جاری رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ، بہار، مغربی بنگال،مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔ گورکھا ٹائیگر فورسز اور علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں سے بھارت کے انٹیلی جنس ادارے خود پریشانی کا شکار ہیں جبکہ بھارتی حکام اپنے ملک میں ہونے والی تمام تخریبی کاروائیوں کے اصل حقائق تک پہنچنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔بھارت میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظیموں میں سے 35تنظیمیں انتہائی خطرناک شمار کی جاتی ہیں۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس بابری مسجد کے انہدام گجرات فسادات اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت میں بھارت کی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ تاہم ان سب تنظیموں میں سب سے زیادہ خطر ناک اور شدت تنظیم نکسل باڑی ہے جیسے ماؤ نواز علیحدگی پسند تنظیم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران ماؤ باغیوں نے چھ ہزار سے زائد افراد مارے۔ اس تنظیم کی بڑھتی کاروائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996 میں ان کے حملوں میں صرف 156 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال ان کے ہاتھوں 1134 افراد مارے گئے۔ چونکہ ان کے ٹارگٹ زیادہ تر سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے یہ تعداد کم نہیں۔ گزشتہ چند برسو ں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں نکسل باڑیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔اسی طرح بھارتی پنجاب 1984کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو اندرون وبیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی سکھوں کا ایک مسلح گروپ بھارت سے علیحدہ ایک الگ ریاست خالصتان کے حصول کیلئے برسر پیکار تھا جس کی سرکوبی کیلئے اندرا گاندھی نے امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین گولڈن ٹیمپل میں فوج کے ایک سکھ جرنیل کو کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔بھارتی حکومت کے ایمائ پربھارتی فوج نے سکھوں کے انتہائی مقدس مذہبی مقام پر دھاوا بول کرجہاں ”دربار صاحب ” کی بے حرمتی کی وہاں عبادت کیلئے آئے ہوئے چار ہزار سے زائد سکھوںسمیت سکھوں کے مذہبی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرہ کوعلیحدگی پسند قرار دیتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے خالصتان تحریک کو ہمیشہ کیلئے کچلنے کا اعلان کر دیا۔لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کرکے بہر حال دنیا کو ایک پیغام ضرور دیدیا کہ وہ اب ایسے بھارت کے ساتھ رہنے کو قطعی تیار نہیں جہاں سکھوں کے جان ومال کے ساتھ ان کی مذہبی عبات گاہوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہاہو۔

