مودی سرکار میں ویسے تو بھارت کی تمام ریاستیں ہی مسلم دشمنی میں آگے آگے ہیں لیکن اتر پردیش مسلمانوں سے نفرت اور جرائم میں اب بھی اوّل نمبر پر براجمان ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت اور جرائم کے اعداد وشمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق ریاست اتر پردیش میں گزشتہ برس 2022 میں 13 ہزار جرائم رپوٹ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق 2015 سے اب تک مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اتر پردیش 418 واقعات کے ساتھ سر فہرست ہے۔ اتر پردیش مسلمانوں کے خلاف Love جہاد، حلال جہاد، گھر واپسی، بیٹی بچاو¿ بہو لاو¿، حجاب بندی اور گو¿ر کھشا جیسی مہمات کا گڑھ ہے۔بھارتی وزارت داخلہ کی 2016 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اتر پردیش میں قیدیوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے اور 18ہزار سے زائد مسلمان زیر التوا مقدمات میں اتر پردیش کی جیلوں میں قید ہیں۔پولیس مقابلوں میں مرنے والوں میں بھی مسلمان سب سے زیادہ،2017 سے 2019 تک 146 میں سے86 مسلمان پولیس گردی کا شکار ہوئے۔مودی سرکار نے2016 سے اتر پردیش کے21 ہزار مدرسہ اساتذہ کی تنخواہیں بھی بند کر رکھی ہیں۔ 2015میں محمد اخلاق کو گائے ذبح کرنے کے شک پر ہندو مجمع نے مو ت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور پولیس نے الٹا مقتول کے بھائی پر ہی مقدمہ بنا دیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ محمد اخلاق کو بیدردی سے قتل کرنے والے 15 قاتلوں کو مودی سرکار نے 2017 میں سرکاری نوکریوں سے نوازا تھا۔اسی طرح 5 مارچ 2019 کو میرٹھ میں زمین پر قبضہ کرنے کے لیے بی جے پی رہنما نے مسلمانوں کی 2 سو سے زائد جھونپڑیوں کو جلا دیا تھا۔ رواں سال رمضان میں عید کی نماز ادا کرنے پر1700 مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ۔ گزشتہ برس اپریل میں انتہا پسند ہندو رہنما یاتی نر سنگھ آنند نے اپنے پیروکاروں کو نعوذ باللہ خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہوئے کہا تھا کہ کعبہ پر قبضہ کیے بغیر مسلمانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ مسلم سیاست دان عتیق احمد کو بھائی سمیت انتہا پسند ہندوو¿ں نے پولیس کی حراست کے دوران لائیو کیمرے کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ مظفر نگر کے نیہا پبلک اسکول کی ہندو ٹیچر نے7 سالہ محمد التمش کو سبق یاد نہ کرنے پر باقی بچوں سے تھپڑ لگوائے۔2020 میں دلت خاتون کے ساتھ اترپردیش میں زیادتی اور قتل کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مجرموں کو بھارتی عدالت نے رواں برس باعزت بری کر دیا۔اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلمانو ں کے خلاف نفر ت کی وجہ سے انتہائی بدنام ہیں۔ 2015میں یوگی آدتیہ ناتھ نے شاہ رخ خان کو دہشت گرد کہہ ڈالا تھا۔2018میں یو گی آدتیہ ناتھ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا تھا اور 2019 میں بھی اسی متعصب وزیراعلیٰ نے مسلمانوں کو وائرس قرار دیا تھا۔اسی طرح سادھوی پراچی نے کہا تھا کہ بھارت کو کانگریس کی طرح اب مسلمانوں سے بھی پاک کرنا ہو گا۔اتر پردیش حکومت 2014 سے اب تک 150 سے زائد شہروں، تاریخی مقامات اور جگہوں کے نام ہندو طرز پر تبدیل کر چکی ہے۔ راجہ مندری کو راجہ مہندر اور الہ آباد کو پریا گراج، مغل سرائے کو ڈینڈیال اپاڈھیہ، فیض آباد کو ایودھیہ اور ہوشنگ آباد کا نام نرمدہ پورم کیا جا چکا ہے۔انتہا پسند ہندوو¿ں نے آگرہ کا نام اگروان، لکھنو¿ کا نام لکشمن پور، مظفر نگر کا نام لکشمی نگر اور بہرائچ کا نام سلدویو نگر رکھنے کا بھی مطالبہ کر دیا۔اتر پردیش حکومت کا علی گڑھ اور شاہجہانپور کا نام بھی ہندو طرز پر تبدیل کرنے پر غور ہے۔بی جے پی رہنما و¿ں کا تاج محل کو گرا کر تیجور مندر تعمیر کا بھی مطالبہ ہے۔ اترپردیش میں غیر قانونی مدارس کے معاملے میں ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں 13 ہزار کے قریب غیر منظور شدہ مدارس کو بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ ایس آئی ٹی کی جانچ اور سفارش کے بعد مدرسہ بورڈ ان ہزاروں مدارس کے خلاف کارروائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایس آئی ٹی کی جانچ میں جن مدارس کو بند کرنے کی سفارش کی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر ہندوستان نیپال سرحد پر ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر مدارس گزشتہ 20 سالوں میں خلیجی ممالک سے ملنے والے فنڈز سے بنائے گئے ہیں۔ زیادہ تر غیر قانونی مدارس سات اضلاع میں بنائے گئے ہیں جن میں بہرائچ، شراوستی اور مہاراج گنج ہندوستان-نیپال سرحد پر واقع ہیں۔ نیپال سے متصل ان اضلاع میں مدارس کی تعداد 500 سے زیادہ ہے۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب ایس آئی ٹی کی ٹیم نے ان مدارس کے چلانے والوں سے آمدنی اور اخراجات کے بارے میں معلومات مانگی تو وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ ایسے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ دہشت گردی کی فنڈنگ کے لیے استعمال ہونے والی رقوم خلیجی ممالک سے حوالہ کے ذریعے بھیجی گئی تھیں۔ مدارس چلانے والوں نے اعتراف کیا کہ مدارس عطیات کی مدد سے بنائے گئے تھے، حالانکہ وہ عطیہ دینے والوں کے بارے میں کوئی جواب نہیں دے سکے۔ اس رپورٹ کو لیکر گودی میڈیا میں خوب تشہیر کی جارہی ہے اور دینی مدارس کے خلاف ماحول بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ جہاں ایک طرف ایس آئی ٹی کی رپورٹ پر مسلمانوں میں تشویش پائی جاتی ہے وہیں میڈیا میں اس خبر کو لیکر خوب تشہیر کی جارہی ہے اور غیر منظور شدہ مدارس کو غیرقانونی مدارس لکھا جارہا ہے۔