امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو دی جانے والی مالی امداد پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ "بھارت کے پاس بہت پیسہ ہے، ہم اسے کروڑوں ڈالر کیوں دے رہے ہیں؟ ٹرمپ نے ایلون مسک کے محکمے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (DOGE) کے حکومتی اخراجات کم کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے بھارت کے لیے مختص 21 ملین ڈالر کی امداد پر سوال اٹھایا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "بھارت دنیا کے سب سے زیادہ ٹیکس عائد کرنے والے ممالک میں شامل ہے، ہم وہاں سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ نریندر مودی اور بھارت کا احترام ہے، لیکن ہمیں اپنے ٹیکس دہندگان کے پیسے کی حفاظت کرنی چاہیے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت سمیت دیگر ممالک کی جانب سے عائد کردہ اعلیٰ محصولات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نہ صرف انہیں انتہائی غیر منصفانہ قرار دیا بلکہ ان ممالک پر 2 اپریل سے باہمی محصولات کا اعلان بھی کیا ہے، جو امریکی اشیا پر محصولات عائد کرتے ہیں۔ کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے پہلے صدارتی خطاب میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر آپ اپنی مصنوعات امریکا میں نہیں بناتے ہیں، تاہم، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت، آپ کو ٹیرف ادا کرنا پڑے گا اور بعض صورتوں میں، اس سے کہیں زیادہ۔دوسرے ممالک نے کئی دہائیوں سے ہمارے خلاف ٹیرف کا استعمال کیا ہے اور اب ہماری باری ہے کہ ہم انہیں ان دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنا شروع کریں۔ اوسطاً، یورپی یونین، چین، برازیل، ہندوستان، میکسیکو اور کینیڈا سمیت لاتعداد دوسری قومیں ہم سے بہت زیادہ ٹیرف وصول کرتی ہیں جتنا ہم ان سے وصول کرتے ہیں۔‘امریکی صدر کے مطابق یہ بہت غیر منصفانہ ہے. بھارت ہم سے 100 فیصد سے زائد آٹو ٹیرف وصول کرتا ہے، فروری میں، صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ جلد ہی بھارت اور چین جیسے ممالک پر باہمی محصولات عائد کرے گی۔گزشتہ ماہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکی دارالحکومت کے دورے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا تھا کہ بھارت کو واشنگٹن کے باہمی محصولات سے نہیں بخشا جائے گا، انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ٹیرف کے ڈھانچے پر کوئی ان سے بحث نہیں کر سکتا۔“ہماری مصنوعات پر چین کا اوسط ٹیرف اس سے دوگنا ہے جو ہم ان سے وصول کرتے ہیں۔ اور جنوبی کوریا کا اوسط ٹیرف 4 گنا زیادہ ہے، اس کا سوچیں، چار گنا زیادہ، اور ہم جنوبی کوریا کو فوجی اور بہت سے دوسرے طریقوں سے بہت زیادہ مدد فراہم کرتے ہیں۔‘صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایسا ہی ہوتا ہے اور یہ دوست اور دشمن کی جانب سے ہو رہا ہے، ہمیں کئی دہائیوں سے زمین کے تقریباً ہر ملک نے لوٹا ہے، اور ہم ایسا مزید نہیں ہونے دیں گے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ نظام امریکا کے لیے منصفانہ نہیں اور کبھی تھا بھی نہیں، صدر ٹرمپ نے کہا کہ 2 اپریل سے باہمی محصولات کا آغاز ہو جائے گا۔ریپبلکن قانون سازوں کی تالیوں کے شور میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ دوسرے ممالک جو بھی ہم پر ٹیرف لگاتے ہیں، ہم بھی ان پر ٹیرف لگائیں گے۔’وہ ہم پر جو بھی ٹیکس لگاتے ہیں، ہم ان پر ٹیکس لگائیں گے، اگر وہ ہمیں اپنی مارکیٹ سے باہر رکھنے کے لیے غیر مالیاتی ٹیرف کرتے ہیں، تو ہم انہیں اپنی مارکیٹ سے باہر رکھنے کے لیے غیر مالیاتی رکاوٹیں کریں گے۔‘کچھ عرصہ قبل بھارت میں امریکا کے سفیر ایرک گارسیٹی نے خبردار کیاتھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی خراب ہوسکتے ہیں۔ کینیڈا کے ساتھ ہردیپ سنگھ نجر تنازع کے بعد امریکا کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات انتہائی خراب ہوسکتے ہیں۔ امریکا کو غیرمعینہ مدت کے لیے بھارتی حکام کے ساتھ رابطہ محدود کرنے کی ضرورت ہے۔اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بیان میں کہا تھا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام انتہائی سنگین ہے۔بھارت کو ہردیپ سنگھ قتل کی تحقیقات میں کینیڈا سے تعاون کرنا ہوگا۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکا میں رہنے والے ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے اور سکھوں کے احتجاجی مظاہروں سے متعلق کوئی تحفظات نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے کینیڈا کے بعد امریکا میں بھی سکھوں کی آواز دبانے کی کوشش کی لیکن منہ کی کھانا پڑی۔سکھ رہنماو¿ں کے قتل کی سازش بے نقاب ہونے پر بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے اور مودی سرکار نے بھی امریکہ سے تعلقات خراب ہونے کا اعتراف کر لیا۔ کشیدہ حالات کے باعث سابق امریکی صدر جوبائیڈن نے بھارت کے یوم جمہوریہ کا دعوت نامہ بھی ٹھکرا دیاتھا۔ جوبائیڈن کے نئی دہلی آنے سے انکار پر مودی سرکار نے کواڈ گروپ کا اجلاس ملتوی کر دیا۔ جبکہ امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی نے بھارت کو تشویشناک ممالک میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔بھارت میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے صدر جوبائیڈن کو 26 جنوری کو ہونے والی یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طورپر مدعو کیا تھالیکن بھارتی سرکار پرکینیڈا اور امریکہ میں سکھوں کے قتل کے الزام کے بعد امریکی صدرنے بھارت کا اہم ترین دورہ منسوخ کر دیا۔یہ دوسرا موقع ہے جب کسی امریکی صدر نے یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طورپر شرکت کی دعوت مسترد کی ہے۔ اس سے قبل 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بعض گھریلو مصروفیات کے سبب یوم جمہوریہ تقریبات میں شرکت کرنے سے منع کردیا تھا۔