کالم

بھارت کی ہٹ دھرمی

جموں وکشمیر کے لوگ پچھلی سات دہائیوں سے اپنے پیدائشی حق، حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اس حوالے سے بیش بہا جانی اور مالی قربانیاں دے رہے ہیں ۔ بھارت چاہے طاقت کا کتنا ہی استعمال کیوں نہ کر لے وہ کشمیریوں کے حوصلے پست کرنے میں کامیاب ہیں ہوگا۔ کشمیری جد وجہد آزادی اور شہدا کی قربانیوں کے ساتھ اپنی گہری وابستگی عملی طور پر ثابت کر رہے ہیں ۔ نوجوانوں نے تحریک آزادی کا بیڑہ اٹھایا رکھا اور وہ بھارتی تسلط سے اپنے مادر وطن کی آزادی کیلئے اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی کی پالیسی ترک کرے اور بھارتی قیادت کو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ آزادی کی تحریکوں کو فوجی طاقت کے زریعے دبایا نہیں جا سکتا۔ جموں و کشمیر بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اور اس دیرینہ تنازعے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں موجودہیں۔بھارت کی ہندوتوا حکومت کے ہاتھ نہتے کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ مقبوضہ علاقے میں اختلاف رائے کی ہر آواز کو دبانے پر تلی ہوئی ہے۔بی جے پی کی زیر قیادت مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر کے اسے دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کردیا تھا جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر،سلامتی کونسل کی قراردادوں اورپاک بھارت دو طرفہ معاہدوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔کشمیری کشمیری سیاسی رہنماﺅں کو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات میں قید کرنے کے بعد جیلوں میں انہیں علاج معالجے اور مناسب خوراک جیسی بنیادی سہولتوں کے علاوہ منصفانہ ٹرائل کے حق سے محروم رکھا جارہا ہے جبکہ ان کے اہلخانہ کو خو ف و دہشت کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ عالمی برادری اور بااثر حکومتیں مقبوضہ کشمیر کی تیزی سے بگڑتی ہوئی سیاسی اور انسانی حقوق کی صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کےلئے اپنا اہم کردار ادا کریں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ وادی کو کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنا بھارتی حکومت کا معمول بن چکا ہے ۔ کشمیریوں کو جبری طور پر سرکاری نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں آزادی صحافت پر پابندیوں اور صحافیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ مقبوضہ وادی میں بھارت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات کے بعد سے بھارتی فوج کے ہاتھوں 857 کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ کشمیری شہدا میں 17خواتین اور 28کمسن لڑکے شامل ہیں ۔ مقبوضہ وادی میںبھارت کی وحشیانہ کارروائیاں عالمی برادری کےلئے سنگین چیلنج ہیں، اقدام کا مقصد وادی کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنا ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی طور پر گھروں میں داخل ہو کر لوگوں کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی فوجیوں نے بارہمولہ، بانڈی پورہ سمیت شمالی کشمیر کے مختلف علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں داخل ہوکر خود ساختہ مردم شماری شروع کر دی ہے۔ فوجی اہلکار مقامی رہائشیوں کی تمام ترتفصیلات جمع کرنے میں مصروف ہیں ۔ لوگوں سے ان کے نام، عمریں، پیشہ جات اور ٹیلی فون نمبر سمیت مختلف حوالے سے پوچھ گچھ کے علاوہ تمام معلومات کو تحریری شکل میں جمع کیا جا رہا ہے۔ بڈگام میں کشمیریوں کو فوج کی جانب سے ایک فارم دے کر ہدایت کی گئی کہ اس پر اپنی تمام تفصیلات درج کر کے دستخط کے ساتھ واپس کریں جبکہ کئی جگہوں پر گاو¿ں کے نمبردار کے ذریعے لوگوں میں فارم تقسیم کئے گئے ہیں۔ بوگس مردم شماری کے نتیجے میں صوبہ جموں کے ہندوﺅں نے اپنی پچھلی آبادی میں اچانک چار لاکھ نفوس کا اضافہ دکھا دیا ہے، گویا دس برسوں میں جموں کے ہندوﺅں کی شرح آبادی میں چالیس سے پچاس فیصد اضافہ ہو گیا جبکہ مسلمان آبادی میں د س برس کے دوران اضافہ کہیںبھی دس پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں۔عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں ہونےوالے مظالم کا نوٹس لینا ہو گا ۔ پاکستانی عوام بھارتی مظالم کیخلاف ہر فورم پر آواز اٹھاتی رہے گی اور اپنے کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کرتی رہے گی جب تک کہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت کا بنیادی حق نہ مل جائے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 12 اگست 1948 اور 5 مئی 1949 کو جو دو قراردادیں پاس کی تھیں ان پر عملدرآمد سے کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا لیکن بھارت ہمیشہ سے ان پر عملدرآمد کو ٹالنے کے بہانے بناتا رہا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ رائے شماری سے کشمیر بن جائے گا۔عالمی برادری کو کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہو گا اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کے تعین کا حق دلانا ہو گا ۔ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر کی عوام بھی آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے آزادی کی نعمتوں سے مستفید ہو سکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے