کالم

بھارت یا پاکستان: دوراہے پر کون؟

پاکستان اس وقت ایک مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف سیلابی کی تباہ کاریوں نے ملک کو گھیر رکھا ہے، تو دوسری جانب پاکستان کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت شنگھائی تعاون تنظیم(SCO)کی کانفرنس میں شرکت کیلئے چین روانہ ہو گئی۔اس دورے پر ملک بھر میں سوالات اور تنقید کے طوفان اٹھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اس بھاری بھرکم وفد کا مقصد صرف بھارت اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کی پیش بندی تھا؟ یا یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ پاکستان ہی چین کا اصل ہم نوالہ و ہم پیالہ دوست ہے؟یا پھر یہ ایک سفارتی موقع تھا جسکے ذریعے روس اور دیگر اہم ممالک سے تعلقات استوار کیے جا سکتے تھے؟ اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا۔تاہم پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ چین اور امریکہ کے درمیان توازن کیسے برقرار رکھے۔ خاص طور پر جب تک ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں موجود ہیں، ہماری قیادت کو غیر معمولی سفارتی احتیاط کی ضرورت ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے:کمزور کی بیوی ہر کسی کی بھابھی ہوتی ہے۔یہی کچھ پاکستان کیساتھ بھی ہو رہا ہے۔عالمی سطح پر اگر تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کے وفد کی چین میں موجودگی یا سرگرمیاں بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں، جبکہ بھارتی و زیراعظم نریندر مودی کی اسی کانفرنس میں شرکت عالمی میڈیا کا مرکز بنی رہی۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حالیہ مہینوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک محدود لیکن خونی جھڑپ بھی ہو چکی ہے، جس میں چین کا کردار خاصا اہم رہا۔نئی دہلی نے اس وقت چین کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا، لیکن اب بھارت میں یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ آیا دہلی کو چین سے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں یا نہیں؟اسی دوران امریکہ کی جانب سے کچھ ایسے فیصلے سامنے آئے جنہوں نے بھارت اور چین کے درمیان بات چیت کے دروازے دوبارہ کھول دیے۔ صدر ٹرمپ کی حکومت نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد تک درآمدی ٹیکس عائد کر دیا، اور اسکا جواز یہ دیا گیا کہ بھارت نے روس سے تیل کی خریداری بند نہیں کی۔اس صورتحال میں بھارت کے پاس دو راستے تھے: یا تو وہ امریکی دباؤ میں آ کر روس سے تیل لینا بند کر دیتا، یا پھر ڈٹ کر کھڑا ہوتا۔ بھارت نے دوسرا راستہ چنا اور چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔اب بھارت کو اگلے سال برکس کی صدارت ملنے والی ہے، جسمیں چین اور روس دونوں شامل ہیں ۔ شنگھائی تعاون تنظیم بھی اب6 کے بجائے 20 ممالک تک پھیل چکی ہے۔ اس تناظر میں بھارت کیلئے چین کیساتھ تعلقات بہتر بنانا اقتصادی اور جغرافیائی اعتبار سے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔اسی لیے نریندر مودی نے چین کے صدر شی جن پنگ سے تیانجن میں ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ اختلافات کو تنازعات میں بدلنے کے بجائے اپنی 2.8ارب آبادی کے فائدے کیلئے مشترکہ طور پر کام کریں گے ۔ اس ملاقات کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست پروازیں بحال کرنے اور ویزا پالیسی میں نرمی لانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔تاہم، بنیادی مسائل اب بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ 2014سے 2018کے درمیان مودی نے پانچ بار چین کا دورہ کیا لیکن 2020میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد تعلقات منجمد ہو گئے تھے۔ اب سات سال بعد مودی دوبارہ چین پہنچے ہیں۔اصل امتحان اب یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے سرحدی تنازعات کو کس طرح حل کرتے ہیں۔ اس وقت بھی دونوں اطراف سے 10ہزار سے زائد فوجی متنازعہ سرحدوں پر تعینات ہیں، اگرچہ کشیدگی کو کم کرنے کیلئے سویلین اور فوجی سطح پر بات چیت جاری ہے۔چین اور بھارت کی حالیہ ملاقاتوں کے بعد جاری کردہ بیانات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو تنازع میں نہیں بدلنے دیں گے اور سرحد پر امن قائم رکھیں گے۔ایک اور اہم پہلو بھارت کا چین کیساتھ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ہے، جو اب 99ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کیخلاف کئی تجارتی شعبوں میں بھاری محصولات اور ڈیوٹیاں عائد کر رکھی ہیں۔ چین چاہتا ہے کہ بھارت اپنی 1.4 ارب آبادی کی مارکیٹ کو چینی مصنوعات کیلئے کھولے، لیکن بھارت اس وقت تک یہ قدم اٹھانے سے گریزاں ہے جب تک کہ تجارتی خسارہ کم نہ ہو۔چین سے بڑھتے تعلقات کی بنیاد گزشتہ سال قازان میں مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات میں رکھی گئی تھی، لیکن امریکی ٹیرف نے اس عمل کو مزید تیز کر دیا۔ اگرچہ عالمی منظرنامہ بدل رہا ہے، مگر بھارت کیلئے زمینی حقائق اب بھی وہی ہیں۔مودی-شی ملاقات کو بھارت کی اسٹریٹجک خودمختاری کی پالیسی کا حصہ تصور کیا جا رہا ہے، مگر یہ راستہ دہلی کیلئے مزید جغرافیائی اورسفارتی چیلنجز بھی پیدا کرے گا۔ امریکہ کیلئے بھی یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ بھارت کو خود سے دور جانے دے۔یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو اب صرف حکومتوں کے تعلقات کے تناظر میں نہیں، بلکہ مستقبل کے عالمی اتحادوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔اس تمام منظرنامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ اگر ہم صرف مشاہدہ کرتے رہیں اور فیصلے لینے سے گریز کرتے رہیں ، تو عالمی بساط پر ہمارا کردار مزید کمزور ہو جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیں نہ صرف امریکہ اور چین کے درمیان توازن کے حوالے سے بلکہ خطے میں اپنی ساکھ کے بارے میں بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے